خانیوال: مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والا شخص کون تھا؟

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایسے واقعات ہرگز برداشت نہیں کیے جائیں گے جبکہ پولیس کے مطابق اس کیس میں 15 ملزمان کو شناخت کرنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پنجاب پولیس نے اتوار کو بتایا کہ خانیوال میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے شخص کے کیس میں 15 مرکزی ملزمان کو شناخت کرکے گرفتار کرلیا گیا۔

ترجمان پنجاب پولیس نے بتایا کہ گرفتار ملزمان میں محمد یعقوب، کاشف، محمد ریاض، ثقلین، محمد شان، آصف، ندیم، قیصر نذیر، عبد الغنی ، محمد اسلم، محمد عامر، اعجاز، محبوب الرحمن، محمد بلال اور علی شیر شامل ہیں۔

ترجمان کے مطابق مرکزی ملزمان کو ویڈیو فوٹیجز میں مقتول پر اینٹوں اور ڈنڈوں سے تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو فوٹیجز کی مدد سے مزید ملزمان کی گرفتاری اور شناخت کا عمل جاری ہے۔

ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس نے ابھی تک کل 85 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں مرکزی ملزمان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

’مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے جاری ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب سارے آپریشن کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔‘

’ایسے واقعات کسی صورت قابل برداشت نہیں‘

وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کو کہا کہ ان کی حکومت قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی اور مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات پر قانون کی پوری طاقت کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
ان کا یہ بیان پنجاب کے ضلع خانیوال میں ہفتے کو پیش آئے ایک واقعے کے بعد سامنے آیا، جس میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام پر ایک شخص کو تشدد کر کے مار ڈالا۔
گذشتہ سال دسمبر میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں سری لنکن مینیجر پریانتھاکمارا کو بھی توہین مذہب کے الزام پر تشدد کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
خانیوال کا حالیہ واقعہ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’کسی کے قانون ہاتھ میں لینے پر ہماری برداشت صفر ہے اور ہجوم کی طرف سے کسی کو تشدد کا نشانہ بنانے پر قانون پوری سختی کے ساتھ نمٹے گا۔ 
’میں نے آئی جی پنجاب سے میاں چنوں واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی اور پولیس کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی ہے جو فرض کی ادائیگی میں ناکام رہی۔‘


وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ مبینہ توہین مذہب پر تشدد پاکستان کے تعلیمی شعبے میں ’تباہ کن انتہاپسندی‘ کا نتیجہ ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ سکول، تھانے اور منبر کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

مقتول کون تھا؟

مشتعل ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہونے والے شخص کے بارے میں علاقے کے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقتول کی عمر لگ بھگ 50 سال تھی اور  ان کا دماغی توازن پیدائشی طور پر خراب تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مقتول پہلے بھی گھر سے مہینہ ڈیڑھ مہینے تک غائب رہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ علاقہ مکینوں سے پولیس کو معلوم ہوا کہ مقتول اکثر محلے کی گلیوں میں گھومتے پھرتے رہتے یا مسجد میں کئی کئی گھنٹے بیٹھے رہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ مقتول کا دماغی توازن خراب تھا اس لیے وہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور کوئی کام بھی نہیں کرتے تھے۔

پولیس افسر نے مزید بتایا کہ مقتول کی لاش ان کے سوتیلے بہن بھائیوں کے حوالے کردی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں 22 مرکزی ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب مقامی رہائشی اسامہ طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقتول 16 برس سے ذہنی معذور تھے اور ان کے والد نے دو شادیاں کی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’والد فوت ہوچکے ہیں جبکہ ان کی سگی اور سوتیلی والدہ دونوں حیات ہیں اور یہ کل 13 بھائی بہن تھے۔

اسامہ کے مطابق مقتول کی ایک بہن تلمبہ میں رہائش پذیر تھی، جن سے ملنے کے لیے یہ گئے لیکن پتہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے مسجد میں ٹھر گئے، جب یہ واقعہ پیش آیا۔

اسامہ نے بتایا کہ اتوار کی صبح  ایس ایچ او انسپکٹر منور گجر چک کے چیئرمین کے ساتھ آئے اور مقتول کی لاش ان کے بھائی کے حوالے کر دی۔

مقتول کے بھائی رانا ذوالفقار نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا بھائی 16 سال پہلے ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ ان کا کئی برس سے نفسیاتی علاج جاری تھا جس کے لیے ان کی چھ ایکڑ زمین بک گئی اور پھر پورا خاندان روزگار کی تلاش میں کراچی منتقل ہوگیا۔

چیئرمین پاکستان علما کونسل اور نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے آج تلمبہ کا دورہ کیا اور واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ذمہ داروں کو سخت سزا دلوانے کی ہدایت کی ہے-

ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث 62 کے قریب لوگ گرفتار ہیں جبکہ 300 افراد پر ایف آئی آر درج کی جا چکی ھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان