سکیورٹی کا بڑھتا ہوا چیلنج اور ریاست کی ذمہ داری

یہ بات معنی خیز ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا نیا راؤنڈ عین اسی وقت شروع ہوا جب وزیرِ اعظم عمران خان کو چین جانا تھا۔

تین فروری، 2022 کو نوشکی میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملے جان کی بازی ہارنے والے ایک فوجی اہلکار کی تدفین کا فیصل آباد میں ایک منظر (اے ایف پی)

’اسلحہ اتنی جدید ترین نوعیت کا تھا جو امریکی یا نیٹو افواج کے پاس ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر یہ صاف ظاہر تھا کہ دہشت گرد کوئی کمزور اور کم وسائل رکھنے والے گروہ کا حصہ نہیں جس نے بلوچستان میں نوشکی اور پنجگور کے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے کم ازکم 12 اہلکار شہید کیے۔‘

یہ کہنا تھا وزیرِ اعظم عمران خان کے ایک مشیر کا جو ان کے ساتھ نوشکی گئے تھے۔

یقینی طور پر دہشت گردی کا یہ نیا راؤنڈ آنے والے دنوں میں پاکستان کو شدید اور غیر تلافی سیاسی سفارتی اقتصادی نقصانات پہنچانے کے ارادے سے شروع کیا گیا ہے۔ نوشکی اور پنجگور کے حملے اس دن ہوئے جب وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم کو اہم ترین دورے پر چین جانا تھا اور نئی قیادت کو سی پیک ٹو میں صنعت کاروں کے لیے پاکستان حکومت کی تیار کردہ نئی انتظامی اور قانونی سہولیات کی تفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے اور چینی صنعت کاروں کو یہ سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا رہے تھے۔

جہاں یہ سہولیات چینی صنعت کاروں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے لازمی ہیں وہاں فول پروف سکیورٹی سرمایہ کاری کے مثبت اور مربوط ایکو سسٹم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ اور یہی معاملہ ہے جس پر پاکستان کے دشمن اس کو کمزور دیکھنا چاہیں گے۔

جہاں ماضی میں چین کی قیادت نے ماضی میں چینی شہریوں کے خلاف جان لیوا دہشت گردی کے واقعات پر کچھ دبے الفاظ میں شکایت ضرور کی لیکن عموماً پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کھلے عام یکجہتی کا اظہار کیا۔ لیکن حال ہی میں چینی شہریوں کا دہشت گردی کا نشانہ بننے پر بیجنگ نے پاکستانی حکام سے کڑی سکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مطالبے کا پس منظر جولائی میں داسو پراجیکٹ پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئروں کی موت ہے جن کی بس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔

اس حملے کے بعد داسو پروجیکٹ پر کچھ عرصے کے لیے کام روک دیا گیا اور اس وقت تک نہیں شروع ہوا جب تک پاکستان کے اعلیٰ حکام نے چین کو سکیورٹی بہتر کرنے کی ضمانت نہیں دی۔ اس کے بعد چینی حکام نے پاکستانی حکام سے اپنے نو شہریوں کی موت کا معاوضہ بھی مانگا ہے۔ بہرحال داسو سے وابستہ پاکستان اور چین کے درمیان معاملات اب طے پا گئے ہیں۔

پاک چین دوستی تاریخی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اقتصادی، سفارتی اور سکیورٹی کے معاملات میں حکمت عملی ویژن، پالیسی اور پراجیکٹ کی سطح پر تعاون بھی بڑھ رہا ہے۔

 یقینی طور پر پاکستان اور چین کی قیادت کے درمیان سیاسی اور بین الاقوامی مسائل پر نظریاتی ہم آہنگی باہمی تعاون بڑھانے کے لیے لازمی ہے وہاں پاکستان میں اور خاص طور پر سی پیک پراجیکٹ کے علاقوں میں چینیوں کے لیے مربوط سکیورٹی بھی ہر حال میں درکار ہے۔ اس حقیقت سے آشنا پاکستان کے بیرونی مخالفین خاص طور پر بھارت نے باقاعدہ حکمت عملی کے تحت پاکستان میں چینی باشندوں کو جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں، دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان نے یہ معاملات شواہد کے ساتھ بھارت کی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھائے ہیں۔ کلبھوشن یادو پاکستان میں اور خاص طور پر بلوچستان میں بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے پھیلاؤ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

یہ بات اب طے شدہ ہے کہ بھارت ہر حال میں اور ہر قیمت پر پاکستان میں نہ صرف سی پیک کو ناکام دیکھنا چاہتا ہے بلکہ پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے ایک غیر مستحکم صورت حال میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اس وقت بھارت میں مودی حکومت کی فسطائیت کی پالیسی پر اور کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے مظالم پر نظر دوڑائی جائے تو تو مودی حکومت کی یہ پاکستان پالیسی شاید کوئی غیر معمولی یا غیر متوقع حقیقت نہیں ہے۔

 پاکستان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں سکیورٹی قائم رکھنا کوئی آسان معاملہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ہر پہلو سے سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو باخبر اور چوکنا رہنا ہو گا۔

مثلاً وزیرِ اعظم نے غیر معمولی طور پر اپنی چین کے تین روزہ دورے کے فوراً بعد ان سنگین دہشت گردی کے واقعات کے بعد نوشکی جا کر ایف سی اور رینجرز کے جوانوں اور افسران کی حوصلہ افزائی کی اور ایک تفصیلی بریفنگ میں ان دہشت گردی کے واقعات کے محرکات کے بارے میں سکیورٹی قیادت نے وزیرِ اعظم کو آگاہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بریفنگ میں جہاں ان جدید ہتھیاروں اور دہشت گردوں کی صف بندی پر بات کی گئی وہاں پاکستان کی سکیورٹی کو مضبوط اور فول پروف بنانے کی بھی تاکید ہوئی۔ یہ ایک صحیح عمل تھا لیکن جو سکیورٹی کا چیلنج پاکستان کو درپیش ہے ہیں کے لیے ایک طرف جہاں سکیورٹی کی حکمت عملی کو ہتھیاروں اور انٹیلی جنس کے ذریعے بہتر بنانا ہو گا وہاں سکیورٹی کو کمزور کرنے کے محرکات کو بھی ایک سلجھے ہوئے طریقے سے ایک حقیقت پسندانہ طریقے سے سمجھنا ہو گا۔

آخر جہاں بلوچستان اور ملک کے مختلف علاقوں میں اسلام آباد، کے پی کے اور پاک افغان بارڈر کے قریب دہشت گردی کے واقعات میں حال ہی میں قدرےاضافہ ہوا ہے وہاں دہشت گردوں کے حمایتی اور سرگرداں پشت پناہی کرنے والوں کے اہداف اور ٹارگٹ بھی حال ہی میں اور زیادہ پختہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

 یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ اگر بھارت ایک طرف پاکستان کے خلاف خطرناک عزائم اپنا رکھے ہیں تو ساتھ ہی وہ قوتیں بھی دہشت گردی میں ملوث ہیں جو پاکستان چین دوستی کو اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہیں۔

پھر یہ بھی کوئی حیران کن بات نہیں یہی بین الاقوامی سیاست کا مزاج ہے یہی جنگ و جدل بہت سی ریاستوں اور حکومتوں کے ڈی این اے میں ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اندرون خانہ کیا ریاست آئین میں شہریوں اور صوبوں کے ساتھ رشتوں کے طے شدہ اصولوں پر عمل پیرا ہے؟

اس سوال کا حقیقت پر مبنی جواب ناراض بلوچوں سے اور منظور پشتین کے لوگوں سے لینا ہو گا۔ جہاں بیرونی مخالفوں سے نپٹنا ہے وہی اپنے شہریوں کے ساتھ آئین کے مطابق پیش آنا لازمی ہے اور اگر اپنے ہی شہری ٹی ٹی پی کے ہتھکنڈوں اور عزائم کا حصہ بنے تو پھر بھی آئین کی اور قانون کی بالادستی پر قائم رہنا لازمی ہے۔ کہیں نرمی اور کہیں سختی کہیں خونی سے دوستی۔ اس طرح کے دہرے معیار سے نہ کبھی حکومت اور نہ ریاست وہ سکیورٹی مہیا کرسکتی ہے جس کا امن پسند لوگ خواب دیکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر