لاہور کی بلند ترین عمارت: پنجاب حکومت اور ظبی گروپ میں معاہدہ

مبارک سینٹر نامی اس عمارت اس کی تعمیر کے منصوبے کا معاہدہ 2006 میں کیا گیا تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مکمل ہونے کے بعد اسے بھارتی شہر امرتسر سے بھی دیکھا جا سکے گا۔

مبارک سینٹر کی  مجوزہ عمارت۔ پنجاب حکومت کے مطابق منصوبے کی تکمیل سے بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں کے لیے رہائش فراہم ہو سکے گی (تصویر:  اظہر مشوانی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ظبی گروپ کا لاہور میں شہر کی بلند ترین عمارت کی تعمیر کے حوالے سے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس عمارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مکمل ہونے کے بعد اسے بھارتی شہر امرتسر سے بھی دیکھا جا سکے گا۔

مبارک سینٹر نامی اس عمارت اس کی تعمیر کے منصوبے کا معاہدہ 2006 میں کیا گیا تھا لیکن بدلتی حکومتوں، سیاسی مخالفت اور قانونی رکاوٹوں کے باعث یہ منصوبہ تا حال مکمل نہیں ہو سکا۔

تاہم اب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دورہ دبئی کے دوران ظبی گروپ سے معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے مطابق ظبی گروپ لاہور میں مبارک سینٹر کی تعمیر کے کام کی بحالی پر 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر رضامند ہوگیا۔

وزیراعلی سیکرٹریٹ سے اتوار (20 فروری) کو جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے متحدہ عرب امارات کے وزیر شیخ نہیان بن مبارک النہیان کی ملاقات ہوئی، اس موقعے پر شیخ نہیان بن مبارک النہیان نے پنجاب میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔

پنجاب حکومت کے مطابق منصوبے کی تکمیل سے بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں کے لیے رہائش فراہم ہو سکے گی۔

یہ منصوبہ قذافی سٹیڈیم کے قریب بننا ہے اور اگر یہ مقررہ وقت پر مکمل ہو جاتا تو کرکٹ ٹیموں کو اس میں بننے والے ہوٹل میں ٹھہرا کر شہریوں کو میچز کے دوران ٹریفک جام جیسے مسائل سے بھی بچایا جاسکتا تھا۔

پنجاب کے محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی بے مثال سہولیات میسر آئیں گی۔

منصوبہ کی شروعات اور تعطل کی وجوہات

محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ (پی این ڈی) پنجاب کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق مبارک سینٹر کا منصوبہ فیروز پور روڑ پر کلمہ چوک اور قذافی سٹیڈیم کے درمیان شروع کیا گیا تھا۔

2006 میں ابوظبی حکومت سے معاہدہ طے پانے کے بعد اس پر تعمیراتی کام 2007 میں شروع ہوا۔ اس منصوبے کے تحت 90 کنال سے زیادہ رقبے پر سہولیات سے آراستہ ایک ہزار فٹ بلند ٹاور بنانے کا فیصلہ ہوا جس پر اخراجات کا تخمینہ 32 سو ارب روپے لگایا گیا تھا۔

محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے ریکارڈ کے مطابق یہ منصوبہ 2018 میں مکمل ہونا تھا، لیکن اس منصوبے پر کام 2009 میں ہی روک دیا گیا تھا۔

اس منصوبے کی کل لاگت میں 70 فیصد ابوظبی حکومت نے ادا کرنے تھے جبکہ باقی 30 فیصد پنجاب حکومت نے زمین کی مد میں دینے تھے۔ اس مقصد کے لیے ایک کمپنی بنائی گئی جس کا نام تعاون پرائیویٹ لمیٹڈ رکھا گیا تھا۔

اس منصوبے کو روکنے کی ایک وجہ اس وقت عمارت کی بلندی کی حد قانونی طور پر پانچ سو فٹ تک رکھنا تھی، جس پر سول ایوی ایشن نے این او سی جاری نہیں کیا تھا۔

دوسری وجہ سابق وزیراعلیٰ پرویز الہیٰ کے مطابق ان کی مدت پوری ہونے کے بعد نئی آنے والی مسلم لیگ کی حکومت میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی عدم دلچسپی تھی اور اس وجہ سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔

اس کے بعد دو بار پھر مسلم لیگ ن کی پنجاب میں حکومت آئی لیکن یہ منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔ اب تحریک انصاف کی حکومت، جس کی چوہدری پرویز الہیٰ کی جماعت مسلم لیگ ق بھی اتحادی ہے، نے اس منصوبہ کودوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

منصوبے میں کیا کیا شامل ہے؟

ترجمان پی این ڈی سحر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ شہر کی بلند ترین عمارت ہو گی جس کی اونچائی ایک ہزار فٹ تک طے کی گئی تھی مگر جب اعتراض لگا تو پانچ سو فٹ بنانے پر غور کیا گیا لیکن پالیسی میں اجازت شامل ہونے سے امکان ہے کہ یہ ایک ہزار فٹ بلند ہی ہوگی جو بھارتی شہر امرتسر سے بھی دکھائی دے گی جو لاہور سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ظبی گروپ اور پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی تعاون کمپنی 16میٹر گہرے چار تہہ خانے بھی بنائے گی۔‘

سحر اقبال کے مطابق: ’اس سینٹر میں ہوٹل، کانفرس ہالز، رہائشی اپارٹمنٹس، دفاتر اور ٹریڈ سینٹر بھی شامل ہیں۔‘

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ ’اس منصوبے کو قذافی سٹیڈیم سے منسلک کیا جائے گا اور پارکنگ بھی سٹیڈیم کی سائیڈ پر بنائی جائے گی۔‘

منصوبے کا رقبہ

ترجمان پی این ڈی کے مطابق ’اس کا رقبہ تقریباً 40 ہزار مربع میٹر جس کا دائرہ 830 میٹر ہے، اس کی مشرقی دیوار 200 میٹر لمبی فیروز پور روڈ کے قریب مغربی دیوار گارڈن ٹاؤن رہائشی علاقے کے قریب 226 میٹر لمبی، شمالی دیوار راجہ مارکیٹ کے قریب 190 میٹر لمبی اور رہائشی علاقہ گارڈن ٹاؤن کی طرف جنوبی دیوار جبکہ تجارتی مرکز کے قریب 206 میٹر لمبی دیوار بنے گی۔‘

مجوزہ چار تہہ خانوں کے لیے 16 میٹر کی گہرائی تک کھدائی عارضی طور پر شورنگ سسٹم کی فراہمی کے ساتھ کی گئی ہے۔

ترقیاتی منصوبوں پر سیاست

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت میں جو منصوبے شروع کیے گئے تھے مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں اقتدار ملتے ہیں ان میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور مبارک سینٹر جیسے کئی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت، متعدد شہروں میں ہسپتال اور سکولوں کے منصوبے جوان کی حکومت نے شروع کیے تھے مسلم لیگ ن کی حکومت نے وہ بند کر دیے تھے اور وہی منصوبے کئی سال بعد جب پی ٹی آئی حکومت سے شروع کروائے تو ان پر لاگت کئی گنا بڑھ گئی وقت کے ساتھ فنڈز بھی ضائع ہوئے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح ریسکیو 1122 کا ادارہ اور ٹریفک وارڈنز بھی ہم نے بھرتی کیے لیکن اس جانب بھی خاص توجہ نہیں دی گئی۔‘

خدشات کیا ہیں؟

اس منصوبے پر سامنے آنے والے خدشات پر پی این ڈی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس منصوبے میں بننے والے سینٹر سے قذافی سٹیڈیم تک ایلیویٹڈ روڈ اور پارکنگ کے لیے قذافی سٹیڈیم کے قریب وفاقی حکومت کی زمین فائنل ہوئی لیکن ابھی تک اس زمین کے استعمال کی اجازت بھی نہیں ملی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیر اعلیٰ دبئی میں مبارک سینٹر منصوبے سے متعلق ملاقات میں اس پر دوبارہ کام شروع کرنے پر بات کریں گے لیکن 15 سال بعد اب تعمیراتی میٹریل پر لاگت بھی زیادہ آئے گی اور اس کا ڈیزائن بھی جدید بنانا پڑے گا کیوں کہ پہلے والا منصوبہ اس وقت کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تھا۔‘

ان کے مطابق اب اس منصوبے پر دوبارہ ساری بریفنگ دینا پڑے گی اسی لیے اس منصوبے سے متعلقہ سرکاری حکام بھی ان کے ساتھ گئے ہیں۔

پی این ڈی افسر نے بتایا کہ ’موجودہ حکومت اس منصوبہ کی تکمیل میں سنجیدہ تو ہے لیکن اب ان کی ڈیڑھ سال مدت باقی ہے اور اس قلیل مدت میں اس منصوبے کی تکمیل ممکن نہیں، تاہم شروع ضرور ہوسکتا ہے اور آئندہ انتخابات میں کسی اور جماعت کے اقتدار میں آنے پر یہ منصوبہ پھر تعطل کا شکار ہونے کا خدشہ رہے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بار معاہدے میں اس بات کا بھی خیال یقینی رکھا جائے گا کہ حکومت تبدیل ہونے پر یہ دوبارہ نہ رکے اور جتنی قانونی رکاوٹیں ہیں وہ دور کی جائیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان