اسلام آباد جیل کا منصوبہ: ’فنڈز آئیں تو کام ہوتا ہے ورنہ رکا رہتا ہے‘

اسلام آباد میں 2009 کو 90 ایکڑ رقبے پر ماڈرن جیل کمپلیکس بنانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ یہ منصوبہ کہاں تک پہنچا جانیے اس رپورٹ میں۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جیل نہ ہونے کے باعث یہاں جرائم میں ملوث افراد اور سزا یافتہ مجرموں کو دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا ہے۔  

راولپنڈی کی واحد جیل سے روزانہ سینکڑوں ملزمان کو اسلام آباد کی مختلف عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے لایا اور لے جایا جاتا ہے۔ 

اتنی بڑی تعداد میں نقل و حمل اضافی اخراجات اور خطرناک ملزموں کی صورت میں سکیورٹی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ 

کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں ڈائریکٹر منصوبہ بندی توقیر نواز کا کہنا ہے کہ 1960 میں اسلام آباد کے قیام کے وقت یہاں جیل کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی یا شاید خیال کیا گیا کہ یہ ضرورت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ہی پوری ہو سکے گی۔  

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں بڑھتے جرائم اور نتیجتاً ملزمان و مجرمان کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر 2009 میں یہاں جیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 

اسلام آباد ماڈل جیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کی ذمہ داری وفاقی دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ کے ذریعے سی ڈی اے کو سونپی گئی لیکن یہ منصوبہ 2020 تک تکمیل کے ہدف کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد بھی نامکمل ہے۔ 

اسلام آباد ماڈرن جیل تعمیر کرنے والے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ایگزیکٹیو انجینیئر مدثر اصغر نے فنڈز کی عدم دستیابی کو منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔

ماضی میں اس منصوبے کی نگرانی کرنے والے مدثر اصغر کے مطابق: ’جب فنڈز آتے ہیں تو کام شروع ہو جاتا ہے ورنہ رکا رہتا ہے۔‘ 

اسلام آباد جیل کیسی ہو گی؟ 

سی ڈی اے ریکارڈ کے مطابق اسلام آباد ماڈل جیل کی تعمیر کے لیے ایگزیکٹیو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ایکنک) نے لگ بھگ چار ارب روپے فنڈ کی منظوری دی تھی۔

جس کے بعد دارالحکومت کے سیکٹر ایچ 16 میں 90 ایکڑ رقبے پر جیل کمپلیکس کھڑا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 

اس منصوبے کے لیے سی ڈی اے 72 کروڑ روپے خرچ کر کے ابتدائی طور پر مذکورہ (چار لاکھ مربع گز سے زیادہ) زمین 33 سال کے لیے لیز کر چکی ہے۔ 

ایکس ای این پی ڈبلیو ڈی عرفان احمد کے مطابق اسلام آباد جیل ایک جدید جیل ہو گی جہاں دو منزلہ بیرکس میں تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، عبادت، کھیل کود، رہائش اور دوسری تمام سہولتیں موجود ہوں گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سپریم کورٹ نے 2019 میں ملک میں جیلوں کی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی محتسب کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ 

اعلیٰ عدالت میں وفاقی محتسب کی پیش کردہ رپوٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد جیل میں مرد، خواتین، بچوں، نشے کے عادی افراد اور خطرناک مجرموں کے لیے الگ الگ حصے ہوں گے، جن کی مجموعی گنجائش بیک وقت دو ہزار افراد رکھنے کے لیے کافی ہو گی۔ 

سی ڈی اے حکام کے مطابق جیل خانہ جات کے انتظامی افسران اور عملے کی تربیت کے مقصد کے لیے ایک قومی اکیڈمی اس منصوبے کا حصہ ہے۔   

ایکس ای این مدثر اصغر نے مزید بتایا کہ اسلام آباد جیل کی چار دیواری اور اندر کئی حصے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ کچھ تکمیل کے قریب ہیں۔ 

کچھ عرصہ قبل سی ڈی اے نے جیل کو سیکٹر ایچ 16 سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم کے مشیر علی نواز اعوان نے اس امکان کو رد کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ منصوبہ اپنے موجودہ مقام پر ہی رہے گا۔ 

اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں جیل ندارد 

اکثر اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اسلام آباد جیسے جدید اور منصوبہ بندی کے تحت وجود میں آنے والے شہر کے ماسٹر پلان میں جیل کی سہولت کیوں نہیں رکھی گئی؟ 

اس پر سی ڈی اے میں ڈائریکٹر منصوبہ بندی توقیر نواز کا کہنا تھا کہ کسی بھی شہر کا ماسٹر پلان ایک پالیسی دستاویز ہوتی ہے جس میں ہر چیز کا ذکر نہیں ہو سکتا۔  

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان میں کسی کالج یا یونیورسٹی کا بھی ذکر نہیں بلکہ تعلیمی اداروں کے قیام بنانے کا کہا گیا۔ 

’جیل اور دوسرے کئی اصلاحی ادارے وقت کے ساتھ ضرورت کے تحت وجود میں آتے ہیں اور ماسٹر پلان کے تحت ایسے منصوبوں کے لیے لے آؤٹ پلان بنتے ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ 1960 میں اسلام آباد کے قیام کے وقت پورا مغربی پاکستان ون یونٹ تھا اور شاید اسی لیے اسلام آباد کے لیے الگ جیل کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ 

پاکستان میں جیلوں کی حالت زار

 سپریم کورٹ میں وفاقی محتسب کی جمع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی 98 جیلوں کی مجموعی گنجائش تقریباً ساڑھے 56 ہزار ہے، جبکہ ان میں 80 ہزار سے زیادہ قیدی موجود ہیں۔ 

حال ہی میں وفاقی وزارت انسانی حقوق نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے احوال سے متعلق ایک رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی، جس میں بتایا گیا کہ دو ہزار سے کچھ زیادہ گنجائش والی جیل میں 5700 قیدی موجود ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق جیل خانے میں کرپشن عام ہے اور بااثر قیدیوں کو پیسوں کے عوض خلاف قانون مراعات فراہم کی جا رہی ہیں۔ 

دنیا کے مختلف ممالک میں جیل خانوں کی آن لائن معلومات مہیا کرنے والی برطانوی ویب سائٹ ورلڈ پریزن بریف کے مطابق پاکستان جیلوں کی تقریباً 90 ہزار آبادی کے ساتھ دنیا کے 223 ممالک اور خطوں کی فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے جبکہ امریکہ اور چین بالترتیب پہلے اور دوسرے، اور بھارت چوتھے نمبر پر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان