محسن بیگ کیس: ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کو شو کاز نوٹس جاری

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے، جس پر تشویش ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک منظر (اے ایف پی/ فائل)

صحافی محسن بیگ کے گھر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے چھاپے کے خلاف پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو توہین عدالت پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔

محسن بیگ کی اہلیہ نے ایف آئی اے کے گھر پہ چھاپے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس کی سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ دوران سماعت انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے، جس پر تشویش ہے۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید ریمارکس دیے کہ ’صحافیوں کے لیے غیرمحفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟‘

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ بابر بخت قریشی عدالت عالیہ میں پیش ہوئے تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ ’آپ نے اس کورٹ اور سپریم کورٹ کو کیا بیان حلفی دیا تھا کہ کیا ایس او پیز بنائے؟‘

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا: ’ایف آئی اے کو روگ ایجنسی نہیں بننے دیں گے، آپ کاکام لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ ہر کیس میں ایف آئی اے اپنے اختیارات سے تجاوز کررہا ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ ’آپ کو شکایت کہاں ملی تھی؟‘ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے عدالت کو بتایا کہ ’وزیر مراد سعید نے 15 فروری کو لاہور میں شکایت درج کروائی۔‘

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا مراد سعید وہاں وزٹ پر گئے ہوئے تھے؟ آپ نے شکایت ملنے پر محسن بیگ کو کوئی نوٹس جاری کیا؟‘ ان سوالوں کے جواب میں ایف آئی اے حکام نے جواب دیا کہ ’محسن بیگ کو نوٹس جاری نہیں کیا۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے قانون میں ہے کہ آپ نے پہلے انکوائری کرنی ہے۔ آپ نے کوئی انکوائری نہیں کی کیونکہ شکایت وزیر کی تھی۔ ٹاک شو ٹیلی وژن پر ہوا تو پھر متعلقہ سیکشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘

اس پر ایف آئی اے ڈائریکٹر نے جواب دیا کہ ’جب وہ ٹاک شو فیس بک، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو تب ہم نے کارروائی کی۔‘

عدالت عالیہ نے مزید سوالات کیے کہ ’آپ نے کیا انکوائری کی؟ کیا ملزم نے وہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا؟ اس پروگرام میں کتنے لوگ تھے؟کیا سب نے وہی بات کی تو باقی تینوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟‘

اس دوران چیف جسٹس اور ایف آئی اے ڈائریکٹر کے مابین مکالمہ جاری رہا۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ ’باقی لوگوں نے وہ بات نہیں کی جو محسن بیگ نے کی۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟کیا آپ نے وہ کلپ دیکھا ہے؟ آپ پڑھ کر بتائیں کہ کس جملے سے ہتک عزت کا پہلو نکلتا ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کا جملہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس جملے میں کتاب کا حوالہ ہے۔ ان کی اس بات پر عدالت میں موجود افراد معنی خیز انداز سے ہنس پڑے۔

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ ’کیا کتاب کا صفحہ نمبر محسن بیگ نے پروگرام میں بتایا ہے؟‘ اس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ ’نہیں، یہ بات پروگرام میں نہیں کی گئی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر رہے ہیں۔‘

اس موقع پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت سے درخواست کی کہ ’ہم بھی آپ کے بچے ہیں، ایف آئی اے اہلکار کو مارا پیٹا گیا۔‘ جس پر چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ ’نہ آپ میرے بچے ہیں، نہ میں آپ کا باپ ہوں۔ آپ یہ بتائیں کہ ایف آئی اے کے پاس کتنی شکایات زیر التوا ہیں؟‘ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ’پورے پاکستان میں 14 ہزار شکایات زیرالتوا ہیں۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے تمام شکایات پر گرفتاریاں کیں؟ پیکا ایکٹ کا سیکشن 21 ڈی پڑھیں،آپ خود کو مزید شرمندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے کیا معنی ہیں؟وہ بتادیں،آپ اس سیکشن کا کہہ کرشکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کررہے ہیں۔ آپ شرمندہ ہونے کے بجائے مزید دلائل دے رہے ہیں۔ کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟‘

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر بابر بخت قریشی نے عدالت سے کہا کہ ’یہ قانون پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ساری اتھارٹی پر میں تو عمل نہیں کرواتا۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پھر آپ لکھ کر دیں کہ آپ کو کس نے ہدایات دیں۔ یہ عدالت بار بار کہتی رہی ہے کہ آپ محتاط رہیں مگر کیا میسج دیا جا رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی نہیں؟ عدالت اختیارکے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی۔ عدالت میں جمع کروائے گئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی گئی۔ یہ ایک دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں، عدالت یہ برداشت نہیں کرے گی۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کی کلاسک مثال ہے۔ آپ بتائیں کہ اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے تو اس میں فحش بات کیا ہے؟ اگر کتاب میں کوئی بات موجود ہے جس کا کوئی حوالہ دے تو آپ کارروائی کریں گے؟ کیا اس کتاب میں یہ واحد صفحہ ہے جس پر شکایت کنندہ کا ذکر ہے؟‘

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے کہا کہ ’میری ریڈنگ پر بھی سیکشن 21 ڈی نہیں بنتا۔ میں نے ریحام خان کی کتاب نہیں پڑھی۔‘ تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’پھر آپ مفروضے پر بات کررہے ہیں۔ کسی کی ساکھ اختیارات کے غلط استعمال سے نہیں بچتی۔ پبلک آفس ہولڈرز پر لوگوں کا اعتماد ہی ان کی اصل ساکھ ہے۔ ملزم نے چھاپے کے وقت جو کیا وہ الگ معاملہ ہے، جو مجاز عدالت دیکھے گی۔‘

چیف جسٹس نے محسن بیگ کے وکیل کی جانب سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جو کچھ ہوا عدالت اس پر کوئی آبزرویشن نہیں دے گی، ٹرائل کورٹ کو بتائیں۔‘

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ’کسی جج کو دھمکایا نہیں جاسکتا۔ ایف آئی اے نے ایسا کیس بنایا کہ پورا قانون ہی کالعدم قرار ہوجائے۔ ایف آئی اے اس وقت سارا کام چھوڑ کر عوامی نمائندوں کی عزتیں بچانے میں لگی ہوئی ہے۔‘

اس موقع پر محسن بیگ کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جس چھاپے کو ایڈیشنل سیشن جج نے غیرقانونی قرار دیا،اس وقت تک کوئی مزید ایف آئی آر درج نہیں تھی۔ میں یہ کہتا ہوں کہ غیرقانونی چھاپہ نہ مارا جاتا تو اس کے بعد والا واقعہ ہونا ہی نہیں تھا۔ اگر گھر میں کوئی سادہ کپڑوں میں گھس آتا ہے توک یا شہری کو اپنے دفاع کا حق نہیں؟‘

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایف آئی آر درج ہوئی جس پر ملزم کے خلاف کچھ الزامات ہیں۔ اگر کوئی میرے گھر آکر تعارف کرائے کہ وہ ایف آئی اے سے ہے، ساتھ چلیں تومیں اس کے ساتھ جاؤں گا۔ افسر کی ڈیوٹی ہے کہ وہ کسی کی بات نہ سنے، وہ اپنے ہرعمل کا خود ذمہ دارہے۔ عدالت کو لگتا ہے کہ وزیراعظم کو اس کیس کے حقائق سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔ کسی جمہوری ملک میں کسی ایجنسی یا ریاست کا ایسا کردار قابل برداشت نہیں۔ کرمنل ہتک عزت پرائیویٹ رائٹ ہے، پبلک رائٹ نہیں۔‘

اس کے ساتھ ہی عدالت عالیہ نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر کو اختیارات سے تجاوز پر شوکاز نوٹس جبکہ اٹارنی جنرل کو ایف آئے اے کے دفاع کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔

کیس کا پس منظر

گذشتہ دنوں ایک نجی چینل پر نشر کیے جانے والے پروگرام میں وزیراعظم کی جانب سے 10 وزراتوں کو بہترین کارکردگی کا ایوارڈ دینے کا معاملہ زیر بحث آیا تو صحافی محسن بیگ سمیت دیگر مہمانوں نے وزیر مراد سعید کے حوالے سے نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔

جس کے بعد 16 فروری کو ایف آئی اے نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرلیا۔

محسن بیگ کے خلاف مارگلہ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعات 148، 149، 186، 324، 342، 353 اور ایف آئی اہلکار پر حملہ کرنے کی وجہ سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

سیشن جج نے ایف آئی اے کا چھاپہ غیر قانونی قرار دے دیا جبکہ دوسری جانب پیر کے روز انسداد دہشتگردی کی عدالت نے محسن بیگ کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر پولیس کی استدعا پر مزید دو دن کی توسیع دے دی۔ اس کے علاوہ عدالت نے ایم ایس پولی کلینک ہسپتال کو میڈیکل رپورٹ سمیت آئندہ سماعت طلب کرلیا ہے۔

گذشتہ روز اتوار کو محسن بیگ پر گھر میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا مقدمہ بھی درج کر دیا گیا ہے، جو ان  کے گھر سے برآمد کیا گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان