کیا چینی پاکستانیوں سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟

چین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں بہت کم ایسی پاکستانی خواتین ہیں جنہوں نے چینی مردوں سے شادی کی ہو لیکن مردوں کا معاملہ الگ ہے۔

ایک چینی دلہن پانچ جون 2019 کو بیجنگ میں روایتی چینی لباس میں (اے ایف پی)

پچھلے دنوں میرے ایک چینی دوست نے مجھے وی چیٹ پر ایک تصویر بھیجی۔ ساتھ ہنستا ہوا ایموجی بھی آیا۔ تصویر میں ایک چینی مرد کسی دفتر کے باہر نصب معلوماتی بورڈ پڑھ رہا تھا۔

تصویر کا ترجمہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ ایک ایسے شادی بیورو کا دفتر تھا جو چینی باشندوں کی پاکستانیوں سے شادی کرواتا ہے۔

میں نے اس بارے میں معلومات کرنے کی کوشش کی، کچھ خاص حاصل نہیں ہو سکا۔ پھر مجھے ایک نیا سوال ستانے لگا۔ کیا چینی پاکستانیوں سے شادی میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

اس سوال کا جواب کافی پیچیدہ ہے۔ چین میں شادی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ نوجوان نسل کی ایک تعداد شادی میں سرے سے دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ جو شادی کرنا چاہتے ہیں وہ ظاہر سی بات ہے اس شادی سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کے مقابلے میں چین میں شادی کے نظام میں بوجھ مرد پر ہے۔ اسے اپنے آپ کو خاتون کے اہل ثابت کرنے کے لیے اچھا خاصا پڑھنا پڑتا ہے۔ پھر اچھا خاصا کمانا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر کوئی لڑکی اس سے شادی کے لیے ہامی بھرتی ہے۔

بہت سی لڑکیاں چین میں مقیم دوسری قومیت کے افراد سے شادی کر لیتی ہیں۔ جس طرح ہر مسلمان مرد کے دل میں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کی خواہش موجود ہوتی ہے، اسی طرح چینی مرد کے دل میں بھی دوسری قومیت کی لڑکی سے شادی کی خواہش موجود ہوتی ہے۔

لیکن کیا چینی مرد اور چینی عورتیں پاکستانیوں سے شادی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ میں نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اپنے دوست عدیل خان سے رابطہ کیا جنہوں نے پانچ سال قبل ایک چینی خاتون سے شادی کی تھی۔

عدیل نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کی بیوی پاکستان سے نہیں بلکہ چین سے ہوں گی۔ وہ یہاں پڑھنے آئے تھے۔ ڈگری مکمل ہونے کے بعد نوکری ملی تو یہیں کام کرنے لگے۔ دفتر میں ایک خاتون اچھی لگیں۔ انہیں بھی یہ اچھے لگے۔

بات چیت شروع ہوئی۔ پھر دفتر سے باہر ملنا جلنا شروع ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند آئے۔ عدیل نے کچھ عرصے بعد خاتون کو شادی کے لیے پرپوز کر دیا۔

عدیل قبول صورت تھے۔ اچھی نوکری کر رہے تھے۔ خاتون سے محبت بھی کرتے تھے۔ انہوں نے ان کا پرپوزل قبول کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ ہی ماہ بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔ شادی کے پانچ سال گزرنے کے بعد وہ دو پیارے بیٹوں کے والدین ہیں اور چین کے ایک شہر میں ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

عدیل نے بتایا کہ نوجوان چینی نسل رومانوی تعلق یا شادی کے لیے پاکستانیوں میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی۔ کسی کو محبت ہو جائے تو وہ الگ بات ہے۔

چینیوں کے لیے پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی مردوں کے رویے بھی اچھے نہیں ہوتے۔ انہیں چینی خواتین سے اچھا برتاؤ کرنا نہیں آتا۔ وہ بیوی پر رعب جمانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چینی خواتین اس رویے کو بالکل برداشت نہیں کرتیں۔

دوسری طرف چین آنے والی پاکستانی خواتین ملک واپس جا کر ہی شادی کرتی ہیں۔ چین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں بہت کم ایسی پاکستانی خواتین ہیں جنہوں نے چینی مردوں سے شادی کی ہو۔

چینی مرد اور عورت رومانوی تعلق کے لیے امریکی یا یورپی قومیت کے افراد کو ترجیح دیتے ہیں۔

عدیل نے بتایا کہ بہت سے پاکستانی مرد ویزا کی معیاد ختم ہونے پر کسی چینی خاتون کو شیشے میں اتار کر بھی شادی کر لیتے ہیں لیکن ایسے افراد اپنی شادی میں خوش نہیں رہتے۔

چینی باشندے سے شادی کرنے کی صورت میں دو سال کا ویزا ملتا ہے۔ اس ویزا پر نوکری یا کاروبار نہیں کیا جا سکتا۔ نوکری یا کاروبار کرنے کے لیے متعلقہ ویزا کی درخواست جمع کروانی پڑتی ہے۔

عدیل شادی کے وقت ورک ویزا پر تھے۔ وہ شادی کی بنیاد پر ویزا لیتے تو انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے۔ اس لیے انہوں نے ورک ویزا پر ہی رہنے کو ترجیح دی۔

ان کے بچے البتہ اپنی والدہ کی نسبت سے چینی قومیت رکھتے ہیں۔ عدیل کہتے ہیں کہ بچوں کے رہنے کے لیے چین ایک اچھا ملک ہے۔ وہ یہاں اپنے بچوں کو اچھی زندگی دے سکتے ہیں۔

عدیل نے بتایا کہ چینی باشندے سے شادی کے پانچ سال بعد چین میں مستقل قیام کی درخواست جمع کروائی جا سکتی ہے۔ اسے ’چینی گرین کارڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کارڈ کے حامل انسان کے پاس سوائے سیاست اور فوج کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے وہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں جو چینی قومیت رکھنے والے کسی بھی انسان کو حاصل ہیں۔

تاہم اس کا حصول کافی مشکل ہوتا ہے۔ اگر درخواست گزار نے اپنے قیام کے دوران کسی بھی قسم کا غیر قانونی کام کیا ہو جیسے کہ فیملی ویزا پر نوکری کرنا اور وہ  پکڑ میں آ جائے تو اس کی درخواست مسترد کی جا سکتی ہے۔

عدیل ایسے بہت سے پاکستانیوں کو جانتے ہیں جنہوں نے کامیابی سے گرین کارڈ حاصل کیا اور ایسے بھی بہت سے پاکستانیوں کو جانتے ہیں جو پچھلے 15، 20 سالوں سے چین میں رہنے کے لیے ہر سال اپنے ویزے کی تجدید کروا رہے ہیں۔ 

گرین کارڈ کے حصول کے لیے دیگر شرائط میں چین میں بھاری سرمایہ کاری کرنا، یا ایسی ڈگری اور ہنر کا حامل ہونا جس کی چین کو ضرورت ہو وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سے پاکستانی ان شرائط پر بھی پورا نہیں اترتے۔ 

چین میں شادی کے بعد کی زندگی بہت مہنگی ہوتی ہے۔ میاں بیوی دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر زندگی کاپہیہ چلتا ہے۔

عدیل کہتے ہیں کہ چین میں وہی انسان شادی کرنے کے بعد رہ سکتا ہے جو اس شادی کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اچھی نوکری کرتا ہو۔ بچوں کی برابر کی ذمہ داری اٹھانا جانتا ہو۔ ورنہ چینیوں کو ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ