ماہرین نے ایک تحقیق کے بعد نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ سیارچہ جس سے کرہ ارض پر موجود تقریباً تمام ڈائنوسار مارے گئے تھے، موسم بہار میں زمین سے ٹکرایا تھا۔
سیارچے کے ٹکرانے کے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت بعد مرنے والی مچھلیوں کی ہڈیوں کے انتہائی طاقتور ایکس رے اور کاربن آئسوٹوپ ریکارڈز کا استعمال کرتے ہوئے ماہرین اس بات کا تعین کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ یہ سیارچہ زمین سے کب ٹکرایا ہو گا۔
تحقیق میں شامل ٹیم کا ماننا ہے کہ ان کے نتائج سے یہ ثابت کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کیوں کچھ جانور اس (سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے عمل کے) اثر سے بچنے میں کامیاب رہے جبکہ دوسرے ایسا نہیں کر پائے۔
ماہرین نے امریکی ریاست نارتھ ڈکوٹا کے کچھ حصوں کی تلاش کی تاکہ فوسلائزڈ پیڈل فشز اور سٹرجنز کو تلاش کیا جا سکے جو سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے بعد صحفہ ہستی سے ناپید ہو گئے تھے۔
سیارچے کے ٹکرانے کے نتیجے میں بڑا جھٹکا لگا اور اس کے اثر سے پانی کی بڑی لہریں پیدا ہوئیں، جس نے گدلی چٹانوں کو حرکت دی، جس سے یہ مچھلیاں زندہ دفن ہوگئیں۔
محققین کو معلوم ہوا کہ فوسل بننے والی مچھلیاں قدرتی طور پر محفوظ ہو گئی تھیں جن کی ہڈیوں میں کیمیائی تبدیلی کے تقریباً کوئی آثار نہیں تھے اور ان کے نرم ٹشوز بھی اپنی اصل حالت میں برقرار رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مچھلی کی ہڈیوں کے بڑھنے کے عمل کو دیکھتے ہوئے ماہرین کو سال کے اُس وقت کا تعین کرنے میں مدد ملی جب یہ مچھلیاں ہلاک ہوئی تھیں۔
پیڈل فشز کو بھی کاربن آئسوٹوپ کے تجزیے سے گزارا گیا جس سے اس کے سالانہ فیڈنگ پیٹرن کو جاننے میں مدد ملی۔
اس مچھلی کو زوپلانکٹن (سمندری حشرات) کھانا پسند تھا جو موسم بہار اور گرمیوں میں سب سے زیادہ دستیاب ہوتے تھے۔
سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی سے وابستہ اور اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ میلانی ڈیورنگ نے کہا: ’اس بدقسمت پیڈل فش کے بڑھنے کے ریکارڈ کے حوالے سے کاربن آئسوٹوپ سگنل اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ فیڈنگ کا موسم ابھی عروج پر نہیں تھا جب موسم بہار میں موت نے ان کو آن لیا۔‘
ٹیم نے کہا کہ ان کی دریافت سے یہ بتانے میں مدد مل سکتی ہے کہ پرندے، مگرمچھ اور کچھوے سمیت کچھ جانور چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے سیارچے کے زمین کے ٹکرانے کے اثرات سے کیوں بچ گئے تھے جبکہ دیگر جانور اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔
ڈیورنگ نے نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اہم دریافت اس بات کا پتہ لگانے میں مدد کرے گی کہ زیادہ تر ڈائنوسار کیوں مر گئے تھے اور پرندے اور ابتدائی ممالیہ معدومیت سے بچنے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟‘
یہ مطالعہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوا ہے جس میں سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی، ایمسٹرڈیم کی وریجی یونیورسٹی، برسلز کی وریجی یونیورسٹی اور فرانس میں یورپین سنکروٹون ریڈی ایشن فیسیلٹی کے محققین شامل تھے۔
© The Independent