سندھ: عادی مجرموں کی نگرانی کے لیے ای ٹیگنگ پلان منظور

چند روز قبل کراچی پولیس نے سندھ حکومت سے مجرموں کی ای ٹیگنگ کرنے کی سفارش کی تھی اور سات ہزار سے زائد مجرموں کی ای ٹیگنگ کا ایک پلان شیئر کیا تھا۔

کراچی میں 17 اگست 2021 کو ایک جلوس کے دوران پولیس کمانڈوز پہرے پر کھڑے ہیں (اے ایف پی)

وزیر اعلیٰ سندھ نے سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے صوبے میں عادی مجرموں کی ای ٹیگنگ متعارف کروانے کی اجازت دے دی۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے مسودہ قانون کو معائنے کے لیے بھیج دیا ہے البتہ قانونی ماہرین کے اس پر کئی خدشات ہیں۔

چند روز قبل کراچی پولیس نے سندھ حکومت سے مجرموں کی ای ٹیگنگ کرنے کی سفارش کی تھی اور سات ہزار سے زائد مجرموں کی ای ٹیگنگ کا ایک پلان شیئر کیا تھا۔

یہ ای ٹیگنگ اسٹریٹ کرائمز کرنے والے، گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور فون چھیننے والے، گھروں، بینکوں اور دکانوں میں ڈکیتیاں کرنے والے افراد کی نگرانی کے لیے کی جائے گی۔

اس حوالے سے کراچی کے سابق پولیس چیف اور موجودہ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن، جنہیں حال ہی میں کراچی میں سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ایڈیشنل آئی جی کے عہدے پر تعینات کیا ہے، کا کہنا تھا: ’ملزمان کی مانیٹرنگ کے لیے ای ٹیگنگ اب ناگزیر ہوگئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ای ٹیگنگ کے ذریعے عدالت سے مفرور ملزمان کا سراغ لگانے میں مدد ملے گی اور انہی ملزمان کی جانب سے دوبارہ کئے گئے جرائم کا پتہ لگانا بھی کافی آسان ہو جائے گا۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے کہا کہ اس عمل کے بعد ضمانت پر رہا مجرموں کے لیے شہر کی مخصوص حدود سے بغیر اجازت باہر جانا اور اس الیکٹرانک آلے کو اتارنا قانون کی خلاف ورزی میں شمار ہوگا۔ خلاف ورزی کی صورت میں ملزمان کو دوبارہ گرفتاری پر ضمانت نہ دینے کی تجویز ہوگی۔ ای ٹیگنگ سے چھوٹے جرائم میں قید ملزمان کی رہائی سے جیلوں پر بھی کافی دباؤ کم ہوگا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے ایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے تجویز کردہ پلان کی منظوری دے دی۔ اس پلان کے پہلے مرحلے میں 7500 مجرموں کی ای ٹیگنگ کی جائے گی جو یا تو ضمانت پر ہیں یا پھر مفرور ہیں۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ کا اس معاملے پر مزید کہنا تھا: ’ہم نے پولیس اور انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سڑکوں اور اس طرح کے دیگر مقامات سے منشیات کے عادی افراد کو ہٹانا شروع کریں کیوں کہ منشیات کے عادی افراد سٹریٹ کرائمز میں کافی حد تک ملوث ہیں، اس لیے ان کا سڑکوں سے ہٹانا انتہائی اہم ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ چیف سکریٹری سندھ نے گلشن معمار میں ایک مناسب جگہ کی نشاندہی کی ہے جہاں جلد ہی منشیات کے عادی افراد کے لیے بحالی مرکز بنایا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے وزیر اعلی کے مشیر قانون و ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا: ’کراچی میں خطرناک حد تک مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے پیش نظرعادی مجرموں کی ای-ٹیگنگ کا قانون تیار کرکے جائزے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے عادی مجرموں کی ای ٹیگنگ کی تجویز کی باضابطہ طور پر منظوری دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ اس پر جلد از جلد کابینہ میں بحث کی جائے تاکہ اس کی منظوری دی جاسکے۔‘

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اس مسودہ قانون میں سرکردہ وکلا پر مشتمل پینل کو شامل کرنے کی ہدایت بھی کی ہے تاکہ مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی اور ان کی ضمانتوں کی منسوخی کے لیے مزید کام کیا جاسکے۔

انہوں نے پولیس کو ہائی پروفائل کیسز میں قابل نجی وکلا کے ذریعے پراسیکیوشن کا بندوبست کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

وزیر اعلیٰ کی ہدایت کے تحت ایک بڑی تعداد میں وکلا کا ایک پینل رکھا جائے گا۔ کیس کے شکایت کنندہ کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے کیس کی کارروائی کے لیے اس پینل میں سے کسی بھی وکیل کو منتخب کر سکے۔

البتہ ایڈووکیٹ سندھ ہائی کورٹ اور ماہر قانون بیریسٹر ردا طاہر نے سندھ میں مجرموں کی ای ٹیگنگ کے حوالے سے بنائے گئے قانون پر خدشات ظاہر کئے ہیں۔

ان کے مطابق: ’مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کی گفتگو سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اس قانونی مسودے میں اب تک صرف مجرموں کو سزا دلانے، ان کی ضمانت منسوخ کرنے اور نگرانی کے لیے ان کی ای ٹیگنگ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے مگر اس میں مجرموں کے حقوق اور خواتین ملزمان کی ای ٹیگنگ کے حوالے کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔‘

ان کے خیال میں خواتین کے جسم پر ایک الیکٹرانک ڈیوائس لگائی جائے گی، وہ تو معاشرے میں ایک آؤٹ کاسٹ بن جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں کرمنل جسٹس ایکٹ 2003 کے تحت انگلینڈ اور وہیلز میں بھی مجرموں کی الیکٹرانک یا ای ٹیگنگ کی جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت ضمانت پر رہا ہونے والے مجرموں یا جیل کے بجائے کسی اصلاح گھر، کمیونٹی سینٹر یا کسی مخصوص مقام پر بھیجے گئے مجرموں کو یہ ای ٹیگ پہنایا جاتا ہے تاکہ ان کی مسلسل نگرانی کی جاسکے۔

’ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیس کے محکمے کو کافی بدسلوک، کرپٹ اور غیر معیاری سمجھا جاتا ہے۔ مجرموں کو پکڑنے، ایف آئی آر کاٹنے، انکاؤنٹر کرنے، عدالت میں مجرموں کو فرار ہونے سے روکنے، جیلوں میں سیاسی اثرورسوخ اور مجرموں پر بدترین ٹارچر کے کئی واقعات ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ عوام عام طور پر پولیس پر اعتبار نہیں کرتے۔‘

ان کے کہنا تھا کہ مشیر قانون مرتضی وہاب کی جانب سے پیش کئے گئے مسودہ قانون میں یہ تو کہا گیا ہے کہ استغاثہ کے لیے معیاری وکلا فراہم کیے جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ اگر اس قانون کے تحت کیا ملزم کو بھی ایک اچھا، قابل اور مفت وکیل ملے گیا تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔

’پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ہر شخص کو منصفانہ ٹرائل کا حق ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 9 کے تحت کسی بھی شخص کو اس کے جینے اور آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

’اگر ٹرائل کورٹ غلط سزا دے دیتا ہے تو کسی بھی شخص کو یہ ٹیگ لگنے سے اس کے لیے کام کرنے اور کمانے کے مواقع کافی کم ہوسکتے ہیں۔ وہ مجرم کا ٹیگ لگا کر باہر نکلے گا تو لوگ اس سے دور بھاگیں گے۔ اس لیے اس ایکٹ میں یہ دیکھنا لازمی ہے کہ کن مخصوص جرائم پر ای ٹیگنگ لازمی ہوگی؟ ‘

ان خدشات کے حوالے سے مشیر قانون مرتضیٰ وہاب سے متعدد بار رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

پولیس کے مطابق رواں سال کراچی میں اب تک 11000 سے زائد ڈکیتی کے واقعات ہوچکے ہیں۔ ان میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے والے افراد میں سے 13 ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

ڈکیتی کے مختلف واقعات میں اب تک کراچی کے شہریوں سے 3845 موبائل فونز، 6087 موٹرسائیکلیں اور 296 گاڑیاں چھینی جا چکی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان