ایف آئی اے سائبر جرائم کی تحقیقات کیسے کرتی ہے؟

مرکزی مدعی کےمطابق ’ایف آئی اے نے فیس بک آئی ڈی چلانے والے کا بتایا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی، وہ ہماری ہی یونیورسٹی کاایک افسرہے۔‘ یاد رہےسائبر کرائم کے خلاف یکم جنوری 2021 سے 31 دسمبر 2021 تک ایک لاکھ سے زیادہ درخواستیں ایف آئی اے کو موصول ہوئیں۔

مہران یونیورسٹی آف انجئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو (تصویر: ڈائریکٹوریٹ آف میڈیا اینڈ پبلیکشنز ، ایم یو ای ٹی- آفیشل فیس بک)

جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کراچی نے جعلی فیس بک پیجز پر فحش فوٹو شاپڈ تصاویر چھاپ کر مہران یونیورسٹی افسران کو بدنام کرنے کے کیس میں ادارے کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کاشف درس کو تین سال چھ ماہ قید اور ایک لاکھ 60 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

مہران یونیورسٹی آف انجئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو میں طلبہ کی مالی امداد کے شعبے کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کاشف درس کو یہ سزا چھ جنوری 2022 کو سنائی گئی، بعد ازاں انہیں ملیر جیل بھیج دیا گیا۔

کاشف درس کے خلاف پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مہران یونیورسٹی شعبہ نشر و اشاعت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اشفاق لغاری کی شکایت پر اپریل 2019 میں مقدمہ درج کیا تھا۔ مقدمے کے مطابق ملزم نے نگہت ہما کے نام سے جعلی پیجز بھی بنا رکھے تھے، بعد میں اس مقدمے پر یونیورسٹی کے ایک درجن ملازمیں مدعی بن گئے تھے۔  

ایف آئی اے کے مطابق کیس کی شنوائی کے دوران ملزم نے یونیورسٹی کے دیگر افسران کی قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کے ساتھ افسران کے خلاف نازیبا اور قابل اعتراض الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ 

کیس کے مرکزی مدعی اشفاق لغاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’یہ 2019 کے شروعات میں ہوا کہ ایک فیس بک پیج پر ہماری یونیورسٹی کے کچھ افسران کی نازیبا تصاویر لگنا شروع ہوئیں جس کے بعد میری بھی تصاویر آنے لگیں۔ میں نے مختلف اداروں کو شکایت کی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر میں نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا۔‘

’ایف آئی اے نے چند دن تفتیش کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ فیس بک کی آئی ڈی کو چلانے والا شخص کون ہے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو ہماری ہی یونیورسٹی کا ایک افسر ہے۔ جب میں نے کیس درج کرایا تو دیگر متاثرین بھی فریق بن گئے۔ ایف آئی اے نے ملزم گرفتار کرلیا تھا مگر ملزم نے بعد میں ضمانت کرا لی۔ یہ کیس پہلے ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ تک گیا۔ آخرکار عدالت نے پونے تین سال بعد ملزم کو سزا سنادی۔‘

ایف آئی اے کے ایک افسر نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب بھی کوئی شہری آن لائن ہراسمنٹ کی شکایات کرتا ہے تو ایف آئی اے اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ہیڈ آفس سے رابطہ کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ سے ہراساں کرنے والے اکاؤنٹ کا آئی پی ایڈریس حاصل کرتی ہے۔ آئی پی ایڈریس شناختی کارڈ کی طرح منفرد اور ہر صارف کا ایک مخصوص ایڈریس ہوتا ہے۔‘

’آئی پی ایڈریس لینے کے بعد ایف آئی اے اس کی تصدیق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے کراتی ہے جس کے بعد اس اکاؤنٹ سے جڑے فون نمبر والی کمپنی سے اس صارف کا ڈیٹا حاصل کرکے نادرا سے تصدیق کراتی ہے۔ ان تمام شواہد کے بعد چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کرنے کے ساتھ ان کے قبضے سے موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر ضبط کرتی ہے اور ان ڈوائسز میں موجود ڈیٹا سے مزید تصدیق کی جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرکزی مدعی اشفاق لغاری کے مطابق ’ایف آئی اے نے ملزم کی گرفتاری سے قبل یونیورسٹی کے رجسٹرار کو ساتھ لیا اور چھاپہ مار کے ملزم کو گرفتار کرنے کے ساتھ اس کے زیر استعمال دو موبائل فون، ایک عدد لیپ ٹاپ اور ایک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بھی اپنے قبضے میں لیا۔ جب انہیں یونیورسٹی رجسٹرار کی موجودگی میں چیک کیا گیا تو فیس بک آئی ڈی پر اپ لوڈ کی گئی تصاویر موجود تھیں اور ایف آئی اے نے گواہ کے طور پر رجسٹرار کے دستخط بھی کرائے۔‘

ایف آئی اے لیگل ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر طاہر ہیسبانی کے مطابق ایف آئی اے ہمیشہ مکمل تحقیقات کرنے کے بعد ٹھوس ثبوت حاصل کرنے کے بعد ہی مقدمے کا اندراج کرتی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر ہیسبانی نے بتایا ’اس لیے جب بھی ایف آئی اے مکمل تحقیق کے بعد مقدمہ درج کرکے شواہد کے ساتھ کیس عدالت میں لی جاتی ہے تو 99 فیصد کیسوں میں ملزمان کو سزا ملتی ہے۔‘

کیس کے اندراج کے بعد سزا ملنے تک لمبا وقت لگنے کے متعلق سوال کے جواب میں طاہر ہیسبانی نے ایسے کیسوں میں تاخیر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ’کیوں کہ سیٖ آئی اے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کیس عدالت میں پیش کرتی ہے اور ملزم کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ کیس مضبوط ہے اور ہر صورت میں سزا ہوگی تو ملزم کے وکیل کیس کو تاخیر کراتے ہیں۔ کبھی ضمانت کی درخواست دیتے ہیں تو کبھی جان بوجھ کر بہانہ بناکر شنوائی کی نئی تاریخ مانگتے ہیں۔‘

سائبر جرائم میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور ویب سائٹس کی پیچیدگیاں بھی سائبر کیسوں میں تاخیر کا سبب ہیں؟ اس سوال پر طاہر ہیسبانی نے کہا ’ہاں یہ بھی ایک وجہ ہے۔ بہت کم ججوں کو پیچیدہ ڈیجیٹل نظام کے بارے میں معلوم ہے۔ کچھ ججز ہیں جنہیں تکنیکی باتوں کا علم ہے۔ سائبر جرائم کے لیے حکومت نے ہر ضلعے میں دو جج مختص کیے ہیں اور یہ کیس انھی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔‘

ایک سال میں سائبر کرائم کی ایک لاکھ سے زائد شکایات 

ایف آئی اے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سائبرجرائم سے متعلق درخواستوں میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ ریجن کے سربراہ عمران ریاض کی جانب سے چند روز قبل جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یکم جنوری 2021 سے 31 دسمبر 2021 تک ایف آئی اے کو پاکستان بھر سے 102365 سائبر کرائم کی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں 32 فیصد درخواستیں طلبہ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔ ان میں سے 80641 درخواستوں کی تصدیق کی گئی اور 15932 درخواستیں ایف آئی اے کی جانب سے تفتیش کے لیے رکھے گئے میعار پر پورا اتریں، جن پر کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی اے نے 1300 ملزمان کو گرفتار کیا۔ مگر اس رپورٹ میں ایف آئی اے نے یہ نہیں بتایا کہ گرفتار ملزمان میں سے کتنوں کو سزائیں ہوئیں۔  

رپورٹ کے ساتھ جاری اپنے بیان میں عمران ریاض نے کہا ’2021 کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم کی ملک بھر سے موصول ہونے والی شکایات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو ایف آئی اے پر اعتماد ہے، کیوں کہ سائبر کرائم زیادہ ہیں تو لوگ آن لائن فراڈ سے خود کو محفوظ رکھیں۔‘

سائبر جرائم ہوتے کیا ہیں؟  

گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خاص طور کرونا کی عالمی وبا کے بعد لگنے والے لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہونے کے ساتھ سائبر جرائم میں بھی اضافہ دیکھا گیا گیا ہے۔  

ایف آئی اے کے ذیلی ادارے ’نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم‘ کی جانب سے سائبر جرائم کے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی جرم جو کمپیوٹر یا کسی اور ڈیجیٹل ڈیوائس سے انٹرنیٹ کے ذریعے کیا گیا ہو وہ سائبر جرم سمجھا جاتا ہے اور ان سائبر جرائم کی ایک لمبی فہرست بھی دی گئی ہے جن کے تحت ہیکنگ یعنی کسی کے کمپیوٹر یا ڈیجیٹل ڈیوائس  میں مالک کی مرضی کے بغیر داخل ہونا، ڈیوائس کو نقصان پہچانا، وہاں سے معلومات چوری کرنا، کسی ویب سائیٹ کو ہیک کرنا اور کریک کرکے اس کی شکل تبدیل کرنا یا پھر کسی کو آن لائن ہراساں کرنا، دھمکی دینا یا ان کی معلومات چوری کرنا سائبر جرائم میں آتا ہے۔

ان کے علاوہ چائلڈ پورنوگرافی، کسی کو انعام نکلنے جیسے دھوکے بازی کی ای میل یا سپیم ای میل، یا ای میل کے ساتھ کوئی خطرناک وائرس بھیجنا، کسی فرد کی معلومات، پاس ورڈ چوری کرنا یا کسی فرد کی شناخت چوری کرکے استعمال کرنا بھی سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی فرد کو آن لائین بدنام کرنا، مالی فراڈ سمیت کئی جرائم سائبر کرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان میں ان جرائم پر کئی قوانین بھی موجود ہیں، جن میں بھاری جرمانے کے ساتھ سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان