حکومت کو گرانا ہے ورنہ پاکستان ڈوب جائے گا: محمود خان اچکزئی

حزب اختلاف کے بارے میں محمود خان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک اقتدار کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ آئین، پارلیمنٹ، پاکستان کی جمہوریت کو بچانے کے لیے ہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور حزب اختلاف کے سینیئر رہنما محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی متوقع نئی تحریک کا مقصد موجودہ حکومت کو گرانا ہے ورنہ پاکستان ڈوب جائے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ وہ ’آہستہ آہستہ، سلو اینڈ سٹیڈی یہ تحریک چلائیں اور انشا اللہ اس تحریک کو اس نہج تک پہنچائیں گے کہ گلگت سے کوئٹہ تک، کوئٹہ سے لسبیلہ تک، خیبر تک سب جگہ ذہنی یکجہتی قائم ہو۔ ہر جگہ جلسے ہوں گے، ہر جمعے کو مظاہرے ہوں گے۔ ہم ان کو یہ موقع نہیں دیں گے کہ ہمارے بچوں کو ماریں۔ اگر انہوں نے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تو پھر بیٹھ کر اس کا علاج کریں گے۔ ہم نے اس حکومت کو گرانا ہے، ورنہ پاکستان ڈوب رہا ہے۔‘

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ (ٹی ٹی اے پی) نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف گذشتہ دنوں ملک گیر احتجاجی مہم کا اعلان کیا تھا۔

محمود خان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک اقتدار کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ آئین، پارلیمنٹ، پاکستان کی جمہوریت کو بچانے کے لیے ہے۔ ’اگر ایک پارٹی کے پاس سو فیصد اقتدار بھی ہو تو بھی ان کو یہ اختیار نہیں کہ آئین کی بنیادی باتوں کو چھیڑیں۔ انہوں نے تو سب کچھ بدل دیا۔ طے یہ ہوا تھا کہ پارلیمنٹ بالادست ہوگی، آئین بالادست ہوگا، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگی — لیکن انہوں نے بنیادی ڈھانچہ ہی بدل دیا۔‘

ایک سوال کے جواب میں کہ نئی تحریک ماضی کی تحریکوں سے کتنی مختلف ہوگی؟ بلوچستان سے سینیئر سیاست دان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی لوگوں پر یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خود غرض ہیں، اپنی بادشاہی کے لیے کر رہے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوگا۔‘

ملکی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعلی عدلیہ کے وہ لوگ جن کی بڑی ساکھ تھی، جن کو صحیح اور بہترین جج تصور کیا جاتا تھا، انہوں نے استعفے دیے اور اس جذبے سے دیے کہ سب کچھ ایک فرد کے لیے سرنڈر کر دیا گیا ہے۔ ’دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ پارٹیاں بھی (ترمیم) میں شامل ہیں جن کا ہم احترام کرتے ہیں۔ ہم کبھی کسی کے مثبت کام کو نہیں بھولتے، جنہوں نے ماضی میں قربانیاں دی ہیں۔‘

اسلام آباد کی جانب کسی مارچ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جلدی ہوتی ہے، اسلام آباد آخر میں آئیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وجہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان آپ کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں؟ ان کا جواب تھا کہ اس بارے میں آپ مولانا صاحب سے پوچھ سکتے ہیں۔ ’وہ سیاسی آدمی ہیں، حالات کو سمجھتے ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی بھی ذی شعور پاکستانی بغیر تحریک جوائن کیے نہیں رہ سکتا۔ ہم سب اکٹھے ہیں، یہ ہمارا اپنا ملک ہے۔ اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو اس کی بنیادی بنیادیں ہل جائیں گی۔‘

کیا اپوزیشن کے اندر بھی کچھ دراڑیں ہیں جن کی وجہ سے نتائج نہیں مل رہے؟ تو محمود خان اچکزئی کا اصرار تھا کہ ’ہم کیوں ایک دوسرے پر شک کریں؟ لیکن ہمارے انٹیلی جنس ادارے یہ کمال رکھتے ہیں کہ وہ ہر گھر میں گھستے ہیں، ہر پارٹی میں گھستے ہیں۔ اس کے باوجود وہ نتائج نہیں لا سکے جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا۔‘

ان کو امید تھی کہ اس تحریک میں جید لوگ بھی آئیں گے، وکلا بھی آئیں گے، غریب مزدور بھی آئیں گے، سول سوسائٹی بھی آئے گی، آپ بھی انشاءاللہ ہوں گی۔ سب مل کر پاکستان زندہ باد کہیں گے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے گذشتہ ہفتے مذاکرات کی پیشکش بھی کی تھی اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جب ہوگا تو بتایا جائے گا۔ ’یہ باتیں کہنے کی نہیں ہوتیں، جب کریں گے تو سب سے بات ہوگی۔‘

ان کا الزام تھا کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہی ہے۔ ’عوام کی بالادستی ہونی چاہیے تھی، پارلیمنٹ کی ہونی چاہیے تھی۔ آئین کی روح یہ تھی کہ سولین بالادستی ہوگی۔ لیکن چیف ایگزیکٹو شہباز شریف اب کسی کے چپڑاسی بن گئے ہیں۔ اس ملک میں تماشے ہوتے رہتے ہیں۔‘

افغانستان کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد صورت حال کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات ایسے نہیں ہوتے کہ آپ پہلے ہی دھمکی دے دیں کہ ناکام ہوئے تو حملہ کر دوں گا۔ ’افغان پاگل نہیں ہیں۔ افغان کبھی کسی کی دھمکی میں نہیں آتے۔ انٹرنیشنل فورمز بلائیں، ہمسایہ ممالک کو بلائیں — چین، افغانستان، پاکستان، تاجکستان، ایران — سب بیٹھ کر بات کریں۔ دھمکیوں سے کچھ نہیں ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست