ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس: ملزمان کی اپیلیں مسترد، سزا برقرار

قانونی ماہرین اس مقدمے كو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا اور انوكھا مقدمہ قرار دیتے ہیں، جس میں جرم كا ارتكاب ایک ملک میں اور ملزمان كا ٹرائل كسی دوسرے ملک میں ہوا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم كیو ایم) کے سینئیر رہنما 50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو برطانوی دارالحكومت لندن كے علاقے ایجویر میں ان کے گھر کے باہر چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا(تصویر: اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم كیو ایم) كے سینئیر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں سزا یافتہ مجرمان کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے ان كی عمر قید كی سزا برقرار رکھنے كا فیصلہ كیا ہے۔ 

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی كورٹ كے دو رکنی بینچ نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے سزا یافتہ مجرمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کی ٹرائل کورٹ سے عمر قید کی سزا کے فیصلے کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیں۔ 

عدالت نے درخواست گزاروں کے وکلا اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا۔ 

كیس كا پس منظر 

متحدہ قومی موومنٹ (ایم كیو ایم) کے سینئر رہنما 50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو برطانوی دارالحكومت لندن كے علاقے ایجویر میں ان کے گھر کے باہر چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ 

ڈاكٹر عمران فاروق، جو لندن میں جلاوطنی كی زندگی بسر كر رہے تھے، 1990 کی دہائی میں پاكستانی سكیورٹی فورسز كے ایم كیو ایم كے خلاف آپریشن كے شروع ہوتے ہی ملک سے فرار ہو گئے تھے۔  

برطانوی پولیس كی تفتیش كے نتیجے میں قتل میں ملوث افراد كی نشاندہی ہو گئی تھی، تاہم ان كی پاكستان میں موجودگی كے باعث گرفتاریاں ممكن نہ ہو سكیں۔ 

بعد ازاں برطانوی پولیس نے ڈاكٹر عمران فاروق قتل كیس كی تفتیش كے نتائج اور شواہد پاکستانی عدالت كو مجرمان كو موت كی سزا نہ دینے كی شرط پر فراہم كیے تھے۔ 

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی ونگ نے پانچ دسمبر 2015 کو ڈاكٹر عمران فاروق قتل كا مقدمہ درج کیا تھا۔ 

پراسیکیوشن کے تیار كردہ كیس كے مطابق محسن علی سید اور محمد کاشف کامران پر ڈاكٹر عمران فاروق کو قتل كرنے كا الزام تھا، جس میں محسن علی سید نے مقتول کو پیچھے سے پکڑا تھا اور کاشف کامران نے ان پر اینٹوں اور چھریوں کے وار کیے۔ 

سکاٹ لینڈ یارڈ نے 4500 سے زائد لوگوں کے انٹرویوز کیے تھے، جبکہ 7600 سے زائد کاغذات کی چھان بین بھی کی گئی۔

مقدمے کی سماعت کے لیے 30 سے ​​زیادہ گواہوں كے بیانات قلمبند کیے گئے تھے، جن میں کچھ بیرون ملک مقیم افراد بھی شامل ہیں، جنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شہادتیں پیش كیں۔ 

پاكستان كی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تینوں ملزمان کو جون 2020 میں عمر قید كے علاوہ دس، دس لاکھ روپے جرمانہ كیا تھا۔ 

عدالت كے حكم كے مطابق جرمانے كی رقم مقتول کی اہلیہ کو بطور زر تلافی ادا كیا جانا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالتی فیصلے مطابق ’ڈاكٹر عمران فاروق كا قتل متحدہ قومی موومنٹ كے سربراہ الطاف حسین كے حكم پر كیا گیا تھا، اور قتل كے وقت تینوں مجرم كا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔‘

انسداد دہشت گردی كی عدالت نے فیصلے میں مزید كہا تھا كہ ’لندن میں ایم كیو ایم کے دو دیگر اراكین نے پاکستان میں متعلقہ لوگوں کو الطاف حسین کے احکامات سے آگاہ کیا تھا۔‘ 

ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر کام کرنے والے پارٹی کے ایک اور سینئیر رکن معظم علی نے خالد شمیم کے ساتھ مل کر محسن علی اور کاشف خان کامران كی خدمات ڈاكٹر عمران فاروق كے قتل كے لیے حاصل كی تھیں۔ 

قانونی ماہرین اس مقدمے كو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا اور انوكھا مقدمہ قرار دیتے ہیں، جس میں جرم كا ارتكاب ایک ملک میں اور ملزمان كا ٹرائل كسی دوسرے ملک میں ہوا۔ 

برطانیہ کے بیرسٹر اور حکومت پاکستان کے وکیل ٹوبی کیڈمین نے برطانیہ کی مدد سے سزاؤں کو پاکستان کے قانونی نظام کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا تھا۔ 

انہوں نے كہا تھا كہ ’برطانوی حکومت کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ ملزمان کو آزاد، منصفانہ اور شفاف ٹرائل ملے گا اور انہیں سزائے موت نہیں دی جائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا