بچہ نالائق لگتا ہے؟ آدمی اچھا بنے گا، فکر مہ کوہ!

لائق والے کے پاس چونکہ گولڈ میڈل ہو گا، میرٹ ہو گا تو وہ ساری عمر یہی سمجھے گا کہ قائد اعظم نے یہ ملک ہمیں نوکری دینے کے لیے بنایا تھا اور ہم ہی ہیں جو اسے چلانے کے اہل ہیں۔

بچہ اگر آپ کو ’نالائق‘ لگتا ہے تو پریشان مت ہوں، وہ بڑا ہو کے آدمی ضرور اچھا بنے گا۔

لائق بچوں کے پاس پیدائش سے لے کر زندگی ختم ہونے تک ایک سند ہوتی ہے، بڑوں کی، آس پاس والوں کی، باس کی، کہ تم ٹھیک ہو، تم صحیح راستے پر ہو، تو وہ پوری دنیا کو دل جان سے اسی راستے کی طرف گھسیٹنا چاہتے ہیں۔

وہ آپ کو اپنی مثالیں دیں گے، فطری ذہانت کو اپنا کارنامہ بتائیں گے اور سارا مقصد اس کہنے سننے کا یہ ہو گا کہ ہمارے راستے پر چلو، تمہارا ٹانگہ خود بخود ٹورا جائے گا ٹھیک والی سمت میں۔ ان کی بات میں قطعیت ہو گی، لچک کا سوال نشتہ! اگر کوئی ان سے اتفاق نہیں کرے گا تو وہ اسے ذاتی بے عزتی سمجھیں گے کہ ’ہیں؟ ابے ہم کو دنیا ذہین مانتی ہے، ہم نے جھنڈے گاڑ دیے ہر میدان میں اور تم؟ تم ہماری بات نہیں مانو گے؟‘

لائق پنے کا یہ سرٹیفیکیٹ ان کے لیے بے شک اچھا ہوگا، بڑی لش پش زندگی گزرے گی، لیکن ساتھ والے جیسے باقی بھائی بہن، رشتے دار، بیوی یا شوہر، دوست یار، وہ سب کی زندگی عذاب ہوگی کہ یا تو صاحب کے ہر ’صحیح‘ کو صحیح مانیں ورنہ جنگ کے لیے تیار رہیں۔

سمجھ نئیں آرہی؟ آنکھیں بند کریں اور بچپن سے اب تک کے ’لائق‘ دوست یاد کریں، لگائیں حساب!

اب ان کی بات کریں جنہیں آپ ’نالائق‘ سمجھتے ہیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے زندگی ان کی گردن پر سے پیر رکھ کے گزرتی ہے تو انہیں اس کے وزن کا اندازہ ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو اس وزن کے نیچے دیکھیں گے تو شرط لگا لیں، سب سے پہلے یہی نالائق بچے بھاگے بھاگے آئیں گے۔ کیوں؟ کیوں کہ یہ دوسروں کو جج نہیں کرتے کہ اگلا اس وزن میں کیوں پھنسا، یہ نہیں سوچتے کہ اس نے کوئی غلطی کی ہو گی، یہ کاز اینڈ ایفیکٹ نہیں سوچتے، یہ بس دوڑے آتے ہیں اور مدد کر دیتے ہیں۔

لائق بچے حساب کتاب لگاتے رہتے ہیں کہ آخر فلاں بندے کے ساتھ یہ مسئلہ ہوا کیوں۔ سوچی پیا تے بندا گیا!

نالائق کہلانے والے بچوں کے پاس زندگی گزارنے کا بہت سا وقت ہوتا ہے۔ وہ اپنی پسند کے کھیل کھیل سکتے ہیں، وہ آوارہ گردی کر سکتے ہیں، وہ موبائل پہ وقت ضائع کر سکتے ہیں، وہ لمبی سیریں کر سکتے ہیں، وہ خاندان کی ہر شادی میں انجوائے کرتے ہیں، وہ دوستوں کے ساتھ زیادہ ٹائم گزارتے ہیں، وہ جلسے جلوسوں میں گھومنے جاتے ہیں، وہ ٹرینوں پہ بلامقصد چڑھ جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں، انہیں زندگی آگے بڑھ کے اپنے بھید پیش کرتی ہے۔

لائق بچے غریب خود اپنے آپ سے مقابلے میں رہتے ہیں ساری عمر۔ پچھلی دفعہ 90 نمبر آئے 100 میں سے، اگلی دفعہ 95، اس سے اگلی بار 99، پھر بھی وہ سوچیں گے کہ یہ جو ایک نمبر تھا کم بخت یہ کدھر سے کٹا؟ ان کے پاس زندگی کا تجربہ نہیں ہوتا، ان کے پاس سرٹیفیکیٹ ہوتے ہیں یا اگر کوئی تجربہ ہوتا ہے تو صرف اپنی فیلڈ کا، جس کے بل پہ بہرحال دوسرے انسانوں کی زندگی نہیں سمجھی جاسکتی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزے کی بات یہ ہے کہ چل سارے جاتے ہیں۔ انسان ہیں، کارتوس تھوڑی کہ گیلے ہوگئے تو ٹھس ہو جائیں گے۔ لائق بچہ ڈاکٹر بن جائے گا تو ’نالائق‘ اسی کا ہسپتال بنانے کے لیے ٹھیکیدار بن کے آجائے گا۔ لائق والے نے گاڑی خریدنی ہوگی تو شوروم اکثر نالائقوں کے پائے جائیں گے۔ لائق انجینیئر گھر خریدنا چاہے گا تو پراپرٹی ڈیلر وہ ہو گا جو اپنے بچپن میں نالائق کہلاتا تھا۔ تو ٹینشن مت لیں بابا!

دنیاوی حساب سے بھی آپ دیکھیں تو جسے آپ نالائق سمجھتے ہیں وہ زیادہ موج میں رہے گا۔ وہ کوئی ہنر ڈھونڈے گا اور اس کے بل پہ زندگی گزارے گا، یا تھوڑے پیسے جوڑ سکا تو کاروبار کر لے گا۔ دونوں صورتوں میں آگے بڑھنے اور کمانے کے وافر امکانات ہیں۔

لائق والے کے پاس چونکہ گولڈ میڈل ہو گا، میرٹ ہو گا تو وہ ساری عمر یہی سمجھے گا کہ قائد اعظم نے یہ ملک ہمیں نوکری دینے کے لیے بنایا تھا اور ہمی ہیں جو اسے چلانے کے اہل ہیں۔

بات سمجھیں یرا! بچوں میں قدرتی طور پہ ذہن کا فرق ہوتا ہے لیکن مقدر کسی کا اس کو کہاں لے جائے، یہ آپ کبھی نہیں کیلکولیٹ کرسکتے۔ اسے مت کہیں کہ تم نکمے ہو، فلاں کا بیٹا ذہین ہے، فلاں نے اتنے نمبر لیے تم کیوں نہیں لے سکے؟

خوش ہوں کہ آپ کا بچہ کیلکولیٹر نہیں ہے، مشین نہیں ہے، عمر سے بڑے سوال نہیں کرتا، بڑوں کی باتوں میں ٹانگ نہیں اڑاتا، ہر وقت کائنات پہ غور وفکر نہیں کرتا، چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلتا ہے اور خوش رہتا ہے۔ اس سے زیادہ کیا چاہیے؟

آج اگر میں آپ سے پوچھوں تو وہ جو ریت کے ڈھیر میں پاؤں گھسا کے آپ نے گھروندا سا بنایا تھا، وہ زیادہ اہم ہے یا پانچویں جماعت والا آپ کا رزلٹ کارڈ؟ یاد بھی ہے پوزیشن کیا تھی، نمبر کتنے تھے؟

اپنے بچوں کی زندگی اسی ترازو پہ تولیں جس پہ آپ خود پلڑے سے لٹکے زندگی گزارنے کی آرزو کرتے تھے۔ جھکاؤ کی ٹینشن جب خود کبھی نئیں لی تو انہیں کیوں دیتے ہیں؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ