’فادر آف نیشنز‘ کے پورٹریٹ بنانے والے بھارتی آرٹسٹ

بھارتی آرٹسٹ کہتے ہیں کہ وہ اب تک جن بابائے قوم کے پورٹریٹ بنا چکے ہیں ان میں مہاتما گاندھی، محمد علی جناح، شیخ مجیب الرحمان، جارج واشنگٹن، نیلسن منڈیلا، مصطفی کمال آتاترک شامل ہیں۔

بھارت کے جنوبی شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ مختلف ممالک کے معمار قوم کے ہینڈلوم پورٹریٹ تیار کرنے میں ‏مصروف عمل ہیں۔

نرسی ملو کا تعلق حیدرآباد کے دھوبی گھاٹ علاقے سے ہے اور انہوں نے اب تک دس ’فادر آف نیشنز‘ کے پورٹریٹ تیار کیے ہیں، جن میں بھارت، پاکستان، امریکہ، انڈونیشیا، ترکی، بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

نرسی ملو نے اںڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میں نے ابھی تک دس ’فادر آف نیشنز‘ کے پورٹریٹ مکمل کیے ہیں جن میں بابائے قوم مہاتما گاندھی، محمد علی جناح،  شیخ مجیب الرحمان،  جارج واشنگٹن، نیلسن منڈیلا، مصطفی کمال آتاترک شامل ہیں۔‘

’اس کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے فادر آف نیشنز کے پورٹریٹ بھی تیار کیے ہیں اور بتدریج دیگر ممالک کے معمار قوم کے پورٹریٹ بنانا چاہتا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے بنائے پورٹریٹ دو فٹ لمبا اور ڈیڑھ فٹ چوڑا ہے۔

نرسی ملو کا مقصد ہینڈلوم صنعت کو زندہ رکھنا ہے اور وہ اِن پورٹریٹس کو بھارت کی طرف سے متعلقہ ممالک کو بطور تحفہ دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔

’بابائے قوم کے پورٹریٹس بنانے کا مقصد یہ ہے کہ جس نے بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے محنت کی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قربانی دی ہے، ان کو کبھی فراموش نہ کیا جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر برس یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر مختلف ممالک کے رہنماؤں کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے اور انہیں مختلف تحفے دیے جاتے ہیں۔ انہیں اگر ہینڈلوم پر بنے ان کے متعلقہ فادر آف نیشنز کے پورٹریٹس کو تحفہ میں دیا جائے تو اس کی بہت زیادہ قدر و قمیت ہوسکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہینڈلوم کو بھی فروغ ملے گا۔‘

  نرسی ملو نے اپنے آبا و اجداد کی 100 سالہ وراثت کو زندہ رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر کو کارخانہ میں تبدیل کر لیا ہے جہاں وہ گذشتہ 50 سالوں سے ہینڈلوم کا کام کر رہے ہیں۔

 وہ علاقے کے سب سے پرانے بنکروں میں سے ایک ہیں اور اس صنعت کو معدوم ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہینڈلوم  نظام دور کا فن ہے۔ میرے والد اور دادا بھی اسی صنعت سے وابستہ تھے۔ میں نے والد سے یہ کام سیکھا جب میری عمر محض 15 برس تھی۔ میں نے ہمیشہ اپنے آبا و اجداد کی وراثت کو سنبھالنے کو ترجیح دی اور جب تک زندہ ہوں تب تک اس وراثت کو زندہ رکھوں گا۔‘

نرسی ملو نے 15 برس قبل معمار قوم کے پورٹریٹ بنانے کا سوچا تھا تاہم سرکاری ملازمت کی وجہ سے وہ اسے انجام تک نہ پہنچا پاتے تھے۔ پھر تین برس قبل ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے ان پورٹریٹس کو بنانا شروع کیا۔

نرسی ملو ساڑھیاں اور روایتی لنگیاں بنانے میں بھی ماہر ہیں اور انہوں نے گھر کے ہر فرد کو اِس روایتی فن کی تعلیم دی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گھر کے ہر فرد کو یہ کام سکھا چکا ہوں۔ مستقل میں کیا ہو گا یہ کسی کو پتہ نہیں، لیکن اس فن کے ذریعے وہ اپنی روزی روٹی کما سکتے ہیں۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’پاور لوم کی وجہ سے ہینڈلوم کو بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ پہلے ہینڈلوم کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگ بھی اسے بڑے فخر اور شان سے خریدتے تھے لیکن پاور لوم آنے کے بعد رفتہ رفتہ ہینڈ لوم ختم ہونے لگا۔‘

’حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرکار کی جانب سے دھاگہ اور رنگ میں رعایت دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی مارکیٹنگ کے لیے بھی کچھ اقدامات اٹھائے جائیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا