جیت کی دھن کس کو سنائی دے گی

لگتا ہے ٹیم 2007 والی ڈگر پر چل رہی ہے جس نے نہ صرف اپنے مداحوں کو دکھ دیا بلکہ کوچ باب وولمر کو بھی شدید صدمہ پہنچایا تھا۔

چیف سلیکٹر انضمام الحق کا نیٹ سیشن میں مداخلت، پچ چیک کرنا، کوچز یا کپتان کے ساتھ رابطے کرنے اور سب سے بڑھ کر ڈریسنگ روم میں آنے جانے کا کوئی جواز نہیں (اے ایف پی)

ورلڈ کپ میں غیر منظم اور غیر متحد نظر آ رہی پاکستانی ٹیم مسلسل شکست سے دوچار ہے اور اب اسے باقی تمام میچ جیتنے کی ضرورت ہے۔

مجھے لگتا ہے ٹیم 2007 والی ڈگر پر چل رہی ہے جس نے نہ صرف اپنے مداحوں کو دکھ دیا تھا بلکہ کوچ باب وولمر کو بھی شدید صدمہ پہنچایا تھا۔

اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مکی آرتھر کو میرا مشورہ ہے کہ وہ استعفی دے کر کسی اور جگہ جا کر اپنی قسمت آزمائیں۔

اگر ہم ٹیم سلیکشن کے عمل سے بات شروع کریں تو میں یہ کہوں گی کہ انضمام الحق نے بہت ناقص ٹیم سلیکٹ کی۔اگر میرٹ کو مد نظر رکھا جاتا تو ورلڈ کپ کے لیے اس سے کہیں بہتر 15کھلاڑی منتخب کیے جا سکتے تھے۔

 محمد رضوان، عثمان شنواری اور عمر خان جیسے کھلاڑیوں کو نظر انداز کر کے شعیب ملک، ناتجربہ کار تیز بولر محمد حسنین اور عماد وسیم جیسے پارٹ ٹائم کھلاڑیوں کو ترجیح دی گئی۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد سلیکٹرز کو ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کی ٹیم منتخب کر لینا چاہیے تھی، اس سیریز میں رضوان نے لگاتار دو سینچریاں بنائیں۔ اس کے باوجود شعیب ملک جن کی برطانیہ میں کیرئیر اوسط13 رنز رہی ان کو منتخب کر لیا گیا۔ یہ انتخاب ناقابل یقین تھا۔

حیرت ہوتی ہے کہ یہ ایسا کیوں ہوا۔ شعیب ملک کی 2018 سے لے کر اب تک اوسط قریبا 29 رنز اور سٹرائیک ریٹ صرف 77 رہا۔ اس لیے سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر انہیں کیوں چنا گیا اور محمد رضوان کو کیوں نہیں۔

عثمان شنواری کا ایک روزہ میچوں میں ریکارڈ بہت اچھا ہے پھر انہیں کیوں ٹیم میں نہیں رکھا گیا؟اور حسنین کو کیوں چنا گیا جب انھوں نے ورلڈ کپ میں پاکستان کے لیے ابھی تک ایک بھی میچ نہیں کھیلا؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مینجمنٹ کو اس نوجوان پر اعتماد نہیں۔ یہ تمام باتیں بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عماد وسیم کو لے لیں جو آل راؤنڈر کے طور پر ٹیم میں شامل ہیں، لیکن وہ دوسرے آل راؤنڈرز کے برعکس بہت نچلے نمبر پر بیٹنگ کرنے آتے ہیں جو ایک منفی موو ہے۔

وہ بولر کے طور پر بھی میچ ونر نہیں کیونکہ وہ گیند کو سپن نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتی ہوں کہ عمر خان بہتر انتخاب ہوتے جو گیند ’ٹرن‘کرنے کے ساتھ ساتھ گیند کو ائیر بھی دیتے ہیں جس کی وجہ سے بیٹسمین گھبرا جاتا ہے، اس طرح وہ کلدیپ یادیو کی طرح میچ ونر ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ عماد وسیم وکٹ ٹیکر نہیں۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتی ہوں کہ انضمام الحق نے بطور چیف سلیکٹر قوم کی کوئی خدمت نہیں کی، بلکہ ان کی برطانیہ میں مسلسل موجودگی سے اشتعال ہی پیدا ہوا۔

سلیکٹر کا نیٹ سیشن میں مداخلت، پچ چیک کرنا، کوچز یا کپتان کے ساتھ رابطے کرنے اور سب سے بڑھ کر ڈریسنگ روم میں آنے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ کھلاڑیوں کی تقدیس کا خیال نہیں رکھا گیا جو قابل قبول نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سوں کو یاد ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان جب کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو انہوں نے اس وقت کے بورڈ سیکریٹری کرنل رفیع نسیم کو ڈریسنگ روم سے نکال دیا تھا۔

عمران خان کا بجا طور پر موقف تھا کہ یہاں صرف کھلاڑی اور کوچ آ سکتے ہیں۔ اس بات پر بڑا تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔

اب انضمام جیسے کردار وہاں کیوں جاتے ہیں جو ہر چیزمیں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں؟ اس طرح کھلاڑیوں، کپتان اور کوچز پر غیر ضروری طور پر دباؤ آتا ہے۔

میری رائے میں ورلڈ کپ کے بعد انہیں اور شعیب ملک کو سب سے پہلے خدا حافظ کہا جائے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ شعیب ملک ٹیم میں لابی بنانے کی سازش کر رہے ہیں جو کہ ناقابل فراموش غلطی ہے اور میری نظر میں اس کی کوئی معافی نہیں ہے۔

اب اگر پوائنٹ ٹیبل پر پاکستان کی پوزیشن کی طرف نظر ڈالیں تو گرین شرٹس نے پانچ میچ کھیلے اور ان میں سے اکلوتا میچ جیتا ہے۔ اس طرح تین پوائنٹس کے ساتھ افغانستان کے بعد پوائنٹ ٹیبل  پر سب سے نیچے ہیں جبکہ پاکستان کا رن ریٹ ابھی تک منفی ہے۔

پاکستان کا آج میچ جنوبی افریقہ کے ساتھ ہے، جو ابھی تک اچھا کھیل پیش نہیں کرسکی۔ ان کی مشکلات بھی پاکستان جیسی ہیں۔ دونوں ٹیموں کو اپنے اگلے تمام میچ جیتنا ہوں گے تب جا کر ان کی  ٹاپ چار ٹیموں میں جگہ بن سکتی ہے تاہم اس مرحلے پر نظر نہیں آتا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچے گی۔

پاکستان کا پچھلا میچ بھارت کے خلاف تھا جس میں انہوں نے ٹاس جیتے کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا جوانتہائی احمقانہ فیصلہ تھا۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان کو ٹاس جیت کر پہلے  بیٹنگ کرنی چاہیے، لیکن سرفراز نے اس کے بالکل الٹ فیصلہ کیا اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔

اوور کاسٹ کنڈیشن میں پہلے بولنگ کرنے کی میں اس لیے مخالف ہوں کہ میری نظر میں پاکستانی ٹیم میں موسم سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

ہمارے پاس نئی گیند سے بولنگ کرنے والا صرف ایک بولر موجود ہے یعنی عامر۔ وہاب ریاض اور حسن علی نئی گیند کے ساتھ بولنگ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور وہ درمیانے اوورز میں بولنگ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جب گیند تھوڑی سی پرانی ہو چکی ہو تو ظاہر ہوا کہ پاکستان کو پہلے بولنگ نہیں کرنی چاہیے۔

میرے پاکستان کے پہلے بیٹنگ کرنے کے حق میں ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم چیز (Chase) نہیں کرسکتی۔ پاکستانی بہت ہی ناکام چیزر ہیں اور منٹوں میں گھبرا جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ پہلے بیٹنگ کی جاتی لیکن یہ ہوا نہیں۔

بھارت کے خلاف جب بابر اعظم اورحفیظ آؤٹ ہوگئے تو اس کے بعد جیت کی امید ختم ہو گئی تھی کیونکہ سرفراز گھبرائے ہوئے  تھے  اور  شعیب  ملک  اس  طرح  کے بڑے  میچ  وننگ  کردار  ادا نہیں کر سکتے، وہ اتنے بڑے بیٹسمین نہیں۔

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب تک مجبوری نہ ہو پاکستان کو پہلے بولنگ نہیں کرنی چاہیے، تاوقتیکہ پاکستان کوعامرجیسا نئی گیند سے وکٹیں لینے والا ایک اور اچھا بولر مل جائے۔ کامن سینس  استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ پہلے بیٹنگ کرنے کو ترجیح دی جانی چاہیے، چاہے کنڈیشنز کیسی بھی ہوں؟

آج پاکستان کا لارڈز میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ ہے جو دونوں ٹیموں کے لیے جیتنا لازمی ٹھہرا ہے، تو جیسے گیم آف تھرونز میں موسیقی کا ایک مشہور پیس ہے جس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا  ہے کہ جنگ شروع ہونے کا وقت ہو گیا، اس لیے اپنی تلواریں تیز کرلو اور دشمن کو زیر کردو ورنہ وہ تمہیں نیست و نابود کر دے گا۔

اسی طرح اس وقت دونوں ٹیموں کے کانوں میں مشہور کمپوز رامن جوادی کی یہی دھن سنائی دے رہی ہو گی، یعنی کرکٹ کی زبان میں ڈو اور ڈائے !

پاکستان کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ جنوبی افریقا کے خلاف ٹیم میں چند ایک تبدیلیاں کر لے۔ شعیب اورحسن کو باہر بٹھا کر حارث سہیل اور محمد حسنین کوموقع دیا جائے۔ 

ماضی میں لارڈز کا میدان ہماری فتح کے لیے مشہور رہا ہے، لیکن اب وہ وقت ہے کہ سرفراز اینڈ کمپنی قومی فخر اور غیرت اور اپنے بیجز کی عزت کا خیال رکھیں اور نئے جذبے کے ساتھ کھیلیں۔ انفرادی فوائد اور تفاخر کو نظر انداز کر دیں اور ایک ٹیم کے طور پر کھیلیں۔ ٹیم میں لابنگ کی غیر مصدقہ خبروں کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی ٹیم نئی اپروچ اور نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترے اور شعیب ملک جیسے کرداروں کو ڈراپ کردیا جائے جنہوں نے ٹیم کے جذبے کو تباہ کردیا ہے اور  ان کی فارم بھی ناقص ہے۔ اگر پاکستان ٹیم متحد ہوگئی تو مجھے لگتا ہے کہ جنوبی افریقہ جیسے سخت حریف کے ساتھ کڑا مقابلہ ہوگا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ