طالبان کے ماتحت میڈیا

افغان ٹیلی ویژن پر اب ایک ہی وقت کوئی مرد اور خاتون براڈکاسٹر دکھائی نہیں دیتے ہیں - مرد مہمانوں کے ساتھ مرد میزبان اور خواتین کے ساتھ خواتین میزبان۔

افغانستان میں سابق حکومت کے خاتمے کے بعد، تقریباً 40 فیصد آزاد میڈیا زیادہ تر اقتصادی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا(اے ایف پی)

میڈیا اور آزادی اظہار جو کہ افغانستان میں گذشتہ 20 سالوں کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک تھی، اب زوال کے ساتھ بہت سی پابندیوں اور مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

سابق حکومت کے خاتمے کے بعد میڈیا پر پابندیاں بڑھ گئی ہیں اور صحافیوں کو حراست میں لینے اور تشدد کا نشانہ بنانے کی تلخ خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔

ہرات میں ریڈیو نوروز کے نامہ نگار خالد قادری کی طالبان کی انٹیلی جنس سروس کے ہاتھوں گرفتاری اور افغانستان میں بی بی سی کے فارسی، پشتو اور ازبک ٹیلی ویژن پروگراموں کی معطلی میڈیا اور صحافیوں کے لیے سخت ماحول کے تازہ ترین واقعات ہیں۔ خالد قادری کے اہل خانہ نے ہفتے کے روز تصدیق کی کہ انہیں طالبان نے 10 دن تک حراست میں رکھا اور ان پر تشدد کیا گیا۔

طالبان نے بی بی سی کو ایک خط بھیجا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ افغانستان کے فارسی، پشتو اور ازبک سیکشن میں پروگرام کی نشریات بند کر دیں۔

طلوع ٹی وی گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے افغانستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹیلی ویژن میڈیا میں سے ایک ہے۔ اس نے غیر ملکی تفریح، موسیقی اور ٹی وی پروگرام نشر کرنے میں رہنمائی کی، لیکن طالبان کے اقتدار میں آتے ہی اس کی سرگرمیوں کو سختی سے روک دیا گیا۔

ٹیلی ویژن پر اب ایک ہی وقت کوئی مرد اور خاتون براڈکاسٹر دکھائی نہیں دیتے ہیں - مرد مہمانوں کے ساتھ مرد میزبان اور خواتین کے ساتھ خواتین میزبان۔ طلوع ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام جو سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگراموں میں سے ایک تھے وہ بھی منقطع ہوگئے ہیں۔

میڈیا کو موسیقی کے پروگراموں کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا لیکن طالبان کے عروج کے بعد ان میں سے کسی بھی پروگرام کو نشر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود، طلوع ٹی وی نے کچھ غیر ملکی سیریل نشر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن دو ہفتے قبل طالبان کی انٹیلی جنس سروس نے میڈیا بالخصوص طلوع ٹی وی سے رابطہ کیا اور کہا کہ تمام غیر ملکی سیریل بند کردیے جائیں۔

ایک میڈیا کنسلٹنٹ شفیق گوہری کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس اگست کے اواخر میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے طلوع اور لمر ٹی وی نے اپنے تفریحی پروگراموں میں تبدیلیاں کیں تاکہ میڈیا کے عملے کو نقصان نہ پہنچے۔

یہاں تک کہ جب طلوع نیوز نے سلسلہ منقطع ہونے کی خبر کا اعلان کیا، تو طالبان نے اس گروپ کے دفتر پر حملہ کر دیا۔ وہ طلوع نیوز کے سربراہ خپلواک صافی، طلوع نیوز کے نیوز اور سیاسی پروگرام کے میزبان بہرام امان، اور فرہنگ کے قانونی مشیر اور سربراہ نافع خالق کو اپنے ساتھ لے گئے۔

عینی شاہدین کے مطابق طالبان نے بہرام امان اور نافع خالق کے ہاتھ باندھے، انہیں تشدد اور بے عزتی کے ساتھ لے گئے اور راتوں رات قید کر دیا۔

میڈیا، جس نے بدعنوانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سکیورٹی اور سیاسی مسائل پر روشنی ڈالنے میں اہم اور بااثر کردار ادا کیا اب مشکل صورت حال کا سامنا کر رہی ہے۔

شمشاد ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر عابد احساس نے کہا کہ ’تمام میڈیا پروڈکشنز پر پابندی ہے۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق کسی بھی رپورٹ کو نشر کرنے کا حق انہیں نہیں ہے جب تک کہ امارات اس پر تبصرہ نہ کرے اور یہ کہ امارات ان رپورٹس کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ وعدہ تو کرتے ہیں لیکن بولتے نہیں۔‘

وہ حساس معلومات تک رسائی کے مسائل پر بھی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اب بہت مشکل ہو گئی ہے اور کوئی بھی اہم سیاسی مسائل کے بارے میں میڈیا کو معلومات نہیں دیتا جس سے صحافت کا کام بہت مشکل ہوگیا ہے۔

انہوں نے شمشاد ٹی وی پر خواتین کی موجودگی کے بارے میں کہا، ’خواتین خبروں اور سیاسی پروگراموں میں ہیں، لیکن بعض اوقات طالبان ٹی وی پر ان سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔‘

شفیق گوہری، موبی میڈیا ایڈوائزر بھی طلوع نیوز میں پیشہ ور رپورٹرز کی کمی کو میڈیا کا سب سے بڑا چیلنج سمجھتے ہیں: ’ہمارے پاس ایسے رپورٹرز تھے جن میں سے ہر ایک کے پاس 10 سال سے زیادہ کا تجربہ تھا اور وہ خبروں اور سیاسی پروگراموں میں کام کرتے تھے۔ لیکن وہ سب آج ملک چھوڑ چکے ہیں۔‘

افغانستان میں سابق حکومت کے خاتمے کے بعد تقریباً 40 فیصد آزاد میڈیا زیادہ تر اقتصادی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا۔ درجنوں صحافی اور میڈیا پروفیشنلز چلے گئے۔ کچھ دوسرے ممالک میں بے گھر ہو گئے ہیں اور کچھ یا تو بے روزگار ہیں یا دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والی 40 فیصد خواتین اور 60 فیصد مرد بے روزگار ہیں۔

 فری جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر حجت اللہ مجددی ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا اور صحافیوں کے لیے کام جاری رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا پروٹیکشن ایجنسیوں کی درخواست پر طالبان نے مختلف محکموں کے تقریباً 40 ترجمانوں کو متعارف کرایا تاکہ وہ رپورٹرز کے ساتھ بات کر سکیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں صحافیوں کی گرفتاریوں سے حالات میں بہتری کی امید ختم کر دی ہے۔

مجددی نے کہا، ’اگرچہ طلوع نیوز کے عملے کو حراست میں لینے کی وجوہات کی وضاحت کرنے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن ابھی تک اس بات کا کوئی واضح جواب نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجددی کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد صحافیوں کی 84 گرفتاریاں اور مار پیٹ کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

 فری جرنلسٹ ایسوسی ایشن اس وقت افغانستان میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی فہرست مرتب کر رہی ہے۔ مجددی کا کہنا ہے کہ میڈیا کے سپانسرز نے ماضی میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی تعداد کا ڈیٹا بیس فراہم نہیں کیا ہے، اس لیے یہ واضح نہیں ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ میں کتنے صحافی اور میڈیا ورکرز افغانستان چھوڑ چکے ہیں اور کتنوں کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے۔

اقتدار میں آنے کے ابتدائی مہینوں میں طالبان نے کابل میں خواتین کے مظاہروں کی کوریج کرنے والی صحافیوں کو قید اور تشدد کا نشانہ بنایا، اور صحافی نتائج کے خوف سے آزادانہ رپورٹنگ کرنے سے قاصر رہے۔

اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے تمام صوبوں میں میڈیا میں کام کرنے والی خواتین سے گھروں میں رہنے کی ہدایت دی اور جب اس نے کابل پر قبضہ کیا تو قومی ٹیلی ویژن پر خواتین صحافیوں کو کام پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ وہ اب بھی خواتین صحافیوں کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک کرتے ہیں اور خواتین رپورٹرز کے فون کا جواب نہیں دیتے اور خواتین سے بات کرنے اور معلومات فراہم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

گذشتہ 20 سال صحافیوں کے لیے مشکل اور چیلنجنگ سال رہے ہیں۔ انہیں مختلف قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ قتل، مار پیٹ، زبانی تشدد، توہین اور تذلیل اور معلومات کو چھپانا صحافیوں کو درپیش عام مسائل تھے۔ درحقیقت افغانستان میں میڈیا کی آزادی آسانی سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ آزادی اظہار کی جدوجہد میں 136 صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

طالبان کے ’صحافت کے 11 اصول‘ ایسی رپورٹوں کی اشاعت یا نشریات پر پابندی لگاتے ہیں جو ’اسلام کے خلاف‘ اور خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں‘ اور جن کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہو۔ ایک اور حالیہ ہدایت میں تقاضا کیا گیا کہ میڈیا طالبان کے لیے ان کا سرکاری نام امارت اسلامیہ افغانستان استعمال کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل