لسبیلہ کے زمیندار ’11 ارب روپے کے قرض دار‘ کیسے ہوئے؟

زمیندار ایکشن کمیٹی کے مطابق کے الیکٹرک کے ذمہ داروں سے ملاقات کے باوجود مسائل حل نہ کرنے پر وندر میں 22 مارچ سے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا، جو تاحال جاری ہے۔

لسبیلہ کے زمیندار گذشتہ ماہ سے کے الیکٹرک کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہیں (محمد اسلم سوری)

شاہد جیلانی ضلع لسبیلہ کے علاقے بیلہ کے ان زمینداروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بہتر مستقبل کے لیے تین سال کے لیے کرائے پر زمین حاصل کی جہاں انہوں نے کپاس اور دیگر فصلیں کاشت کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے تمام تیاریاں مکمل کرکے کپاس کی فصل کاشت کی اور دیگر فصلوں کے حوالے سے منصوبہ بندی شروع کی۔

اس دوران جب وہ کوئٹہ میں تھے تو انہیں اطلاع دی گئی کہ کچھ لوگ آئے تھے جنہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے کنکشن غیر قانونی ہیں، اس لیے ان کو بند کر دیا جاتا ہے۔

شاہد جیلانی نے بتایا کہ یہ اطلاع پریشان کن تھی۔ ’میں نے مزید معلومات کیں تو پتہ چلا کہ یہ لوگ کے الیکٹرک والے تھے، جو پورے علاقے میں زمینداروں کے ٹرانسفارمرز لے گئے ہیں۔‘

شاہد جیلانی نے بتایا کہ ’میں بھی بیلہ چلا گیا اور معلومات کرنے پر کے الیکٹرک والوں نے بتایا کہ اپنا کنکشن قانونی طور پر لگوائیں اور جتنے بھی سالوں سے بجلی استعمال کررہے ہیں، وہ تمام بقایاجات ادا کر دیں۔‘

شاہد جیلانی کے مطابق ’جب حساب کیا گیا تو مجھ سمیت پورے علاقے والوں پر بہت زیادہ رقم واجب الادا ظاہر کی گئی۔ تاہم معاملہ حل کرنے کی کوشش میں مقامی لوگوں نے کچھ اہلکاروں پر ’تشدد‘ کیا جس سے معاملہ بگڑ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے جو سوچ کر یہ قدم اٹھایا تھا وہ پہلے مرحلے میں ہی ناکام ہو گیا اور میں زمینداری کا فیصلہ ترک کرکے واپس کوئٹہ آگیا۔ اب میں کوئی جگہ تلاش کر رہا ہوں جہاں اس طرح کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

کراچی سے متصل ضلع لسبیلہ کے زمینداروں کو اس وقت ایک حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی ’کے الیکٹرک‘ نے ان کو مجموعی طور پر واجبات کی مد میں 11 ارب روپے جمع کرنے کا کہا۔

زمیندار ایکشن کمیٹی نے نہ صرف کمپنی سے بلکہ دیگر فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا اور موقف اختیار کیا کہ یہ ’ان پر ظلم ہے اور یہ پیسے ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘

ایکشن کمیٹی کے صدر محمد اسلم سوری کہتے ہیں کہ ہر طرح سے کوشش اور کمپنی کے ذمہ داروں سے ملاقات کے باوجود مسائل حل نہ کرنے پر ہم نے وندرمیں 22 مارچ سے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا، جو تاحال جاری ہے۔

محمد اسلم سوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ستمبر 2021 کے میں کے الیکٹرک نے ایک الٹی میٹم جاری کیا کہ ’لسبیلہ کے زمینداروں پر بقایاجات ہیں۔ ان کو ایک ہفتے کے اندر جمع کرا دیں، بصورت دیگر آپریشن شروع کرکے آپ لوگوں کے کنکشن منقطع کر دیے جائیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کے الیکٹرک نے لسبیلہ کے زمینداروں پر 2012 سے 2021 تک کے بقایاجات جمع کر کے 11 ارب روپے کے بل نکالے ہیں۔ اس کے باوجود کہ حکومت کی سبسڈی کے ساتھ  ہم کے الیکٹرک کو 81 ہزار روپے ماہانہ کے بل جمع کرا رہے ہیں، لیکن ہمیں دو سے ڈھائی لاکھ روپے کے بل بھیجے جاتے ہیں۔‘

محمد اسلم سوری کہتے ہیں کہ بجلی کے بحران سے ’ہمیں فصلوں کی پیدوار کی کمی کی شکل میں نقصان ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ ہم گندم کاشت کرتے ہیں تو پہلے ہم ایک ایکڑ سے 25 من گندم اٹھاتے تھے، جو اس بار آٹھ سے 10 من تک رہ گئی۔‘ 

لسبیلہ کے زمینداروں کی سبسڈی 

بلوچستان کے دیگر علاقوں کو بجلی کیسکو کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی فراہم کرتی ہے جبکہ لسبیلہ کو بجلی کی فراہمی کے الیکٹرک کے ذریعے دی جاتی ہے۔

محمد اسلم سوری کے مطابق لسبیلہ کے زمینداروں کو 2004 میں سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت یہاں کے زمیندار صرف چار ہزار ماہانہ جمع کراتے تھے۔ تاہم 2008 میں اسے ختم کر دیا گیا اور پھر 2015 میں دوبارہ سبسڈی دی، جس میں حکومت 65 ہزار اور زمیندار 16 ہزار روپے جمع کراتے ہیں۔

’ضلع میں 2018 تک کوئی میٹر نہیں تھا، بلنگ لوڈ کے تحت ہوتی تھی۔ اس کے بعد 50 فیصد میٹر لگائے گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ان میٹرز پر وولٹیج ڈراپ ہونے سے جب موٹر کا لوڈ پڑتا ہے، تو یہ زیادہ یونٹ گراتے ہیں۔ اگر ایک موٹر ماہانہ تین ہزار یونٹ استعمال کرتی ہے تو ہمیں بل آٹھ ہزار یونٹ کا بھیج دیا جاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں بجلی بھی مطلوبہ مقدار میں نہیں مل رہی ہے۔ ’ہم کہتے ہیں کہ لسبیلہ کو 14 سے 16 گھنٹے بجلی دی جائے لیکن ہمیں چھ سے سات گھنٹے مل رہی ہے۔‘ 

لسیبلہ میں ٹیوب ویل کی تعداد

زمیندار ایکشن کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف وندرمیں دو ہزار اور پورے ضلع میں پانچ ہزار سے زائد ٰٹیوب ویل لگے ہیں۔

اسلم سوری نے بتایا کہ لسبیلہ میں زیر زمین پانی کی سطح 140 سے 180 فٹ تک ہے۔ ’بجلی بحران کے باعث زمینداروں کو بہت نقصان ہو رہا ہے اور فصلوں کے علاوہ جو پھل دار درخت ہیں، ان کی پیداوار بھی کم ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایک مسئلہ کے الیکٹرک کی ’بوسیدہ لائنز‘ بھی ہے جس کی وجہ سے ’بجلی کی فراہمی درست طریقے سے نہیں ہوتی اور وولٹیج کی کمی کے مسائل پیش آتے ہیں۔ ان کی مرمت کی مد میں ہم سے چارجز لیے جاتے ہیں۔‘ 

اسلم سوری کے مطابق: ’جب ہم نے دھرنا شروع کیا تو ڈپٹی کمشنر نے ہم سے مذاکرات کیے تھے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اب وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ ہمارا وفد ان سے ملاقات کرے گا جس میں ہم اپنے مسائل بھی سامنے رکھیں گے۔‘

یاد رہے کہ ضلع لسبیلہ سے اس وقت بہت سے نمائندے صوبائی اور قومی اسمبلی میں موجود ہیں جن میں سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان، صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی اور ممبر قومی اسمبلی اسلم بھوتانی شامل ہیں۔

ضلع میں صنعتی زون بھی ہے جہاں مختلف کمپنیوں کی فیکٹریاں قائم ہیں۔ زراعت کے حوالے سے بھی یہ علاقہ اہمیت کا حامل ہے۔

زمیندار ایکشن کمیٹی کے صدر اسلم سوری نے بتایا کہ ان کے اہم مطالبات میں اربوں کے بقایاجات کا خاتمہ اور کرنٹ میں جو بل دیے جا رہے ہیں، ان میں اضافہ بلنگ کا خاتمہ شامل ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ لسبیلہ میں کوئی سو کے قریب گاؤں کمپنیاں ہیں اور زراعت کے شعبے سے وابستہ زمیندار بھی کام کرتے ہیں۔

کے الیکٹرک کا موقف

ضلع لسبیلہ میں زمینداروں کے احتجاج پر کے الیکٹرک سے رابطہ کیا گیا تو ان کے ترجمان نے بتایا کہ وندر کے زمینداروں پر 2.5 ارب روپے کے واجبات ہیں۔

کے الیکٹرک کے ترجمان نے کہا کہ علاقہ مکینوں اور زمینداروں نے گزارش کی ہے کہ یہ واجبات ان سے ماہانہ کم اقساط پر وصول کیے جائیں جو ممکن نہیں ہے۔

’بجلی کے بل اور ان کے نرخ کا تعین نیپرا کرتی ہے۔ میٹر کی تنصیب کے بعد ریگولیٹری اتھارٹی کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق بل بھیجے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا وندر کے صارفین سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے میں کے الیکٹرک کا ساتھ دیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان