’حیدرآبادی بریانی راجہ ہے تو مندی وزیر‘

بھارتی شہر حیدرآباد میں کچھ عرصے سے عرب پکوانوں کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

بھارت کے جنوبی شہر حیدرآباد میں کچھ عرصے سے عرب پکوانوں کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کے چھوٹے بڑے ہوٹلوں کے مینیو میں عربی ڈشز شامل ہوئی ہیں، جس نے نئے ذائقوں کو جلا بخشی ہے۔

یہ ڈشز اس قدرعام ہو گئی ہیں کہ ان کا مقابلہ حیدرآباد کی مشہور بریانی سے ہو رہا ہے۔ شادی کی تقاریب ہوں یا عام پارٹیاں، یہ ڈشز حیدرآباد کے دسترخوانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ آصف جاہی دور میں یہاں پر عربی پکوانوں کو فروغ حاصل ہوا کیونکہ مسلمان بڑی تعداد میں عرب ممالک سے حیدرآباد آئے، جس سے یہاں کے لوگوں کی کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی واقع ہوئی۔

ڈاکٹر حیسب جعفری کہتے ہیں کہ حیدرآباد اور عربی کھانے کا بہت پرانا رشتہ ہے۔ تقریباً 150 سال قبل عرب ممالک بالخصوص یمن سے کافی تعداد میں سپاہی آئے اور تب سے ہی عربی کھانوں کا چلن شروع ہوا۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں عربی پکوان ملتے تھے۔ ناشتے میں حلیم ملتی تھی، جو کافی مشہور ہے۔ سنہ 2000 کے بعد مندی، خبصہ، فہم اور شاورما جیسی ڈشز کافی مقبول ہونے لگیں۔ عمالی اور بکلاوا جیسی عربی مٹھائیوں کا بھی چلن رہا، لیکن مندی سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مندی نے نہ صرف حیدرآباد کے پرانے علاقوں بلکہ دیگر حصوں کے لوگوں کو بھی اپنی جانب راغب کیا۔ 

مشہور ترین پکوان بریانی کے بغیر حیدرآباد کی ہر تقریب ادھوری سمجھی جاتی ہے لیکن اب پوری ریاست میں لوگ زیادہ تر مندی کھانا پسند کرتے ہیں۔ ذائقے کی وجہ سے بریانی کا موازنہ مندی سے ہونے لگا ہے اور ہوٹلوں میں مندی کے لیے علیحدہ سیکشن کھولے گئے ہیں۔

ڈاکٹر حسیب جعفری کہتے ہیں کہ حیدآباد میں متعدد مقامات پر مندی تھیم ہوٹلز کھولے گئے ہیں، جو عربی ڈشز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ عربی ڈشز کرسیوں اور ٹیبل کی بجائے فرشہ نشست پر فراہم کی جاتی ہیں تاکہ لوگ نیچے بیٹھ کر اسے تناول کرسکیں۔

انہوں نے کہا: ’آج کل حیدرآباد میں گفتگو کا ایک بڑا موضوع یہ بن گیا ہے کہ کیا آپ مندی کھانا پسند کرتے ہیں یا بریانی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں یہ کہوں گا کہ بریانی ہمیشہ حیدرآباد کا راجہ رہے گی اور اگر کھانے میں کسی کو وزیر کا عہدہ دیا جائے تو یہ مندی کو مل سکتا ہے کیونکہ یہ باآسانی مل رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ مندی کو کافی پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مصالحوں کا استعمال کم ہوتا ہے اور یہ تھوڑی ہلکی ہوتی ہے۔

’اس وقت یہاں چکن، مٹن، بیف اور اونٹ کے گوشت سے مندی تیار کی جاتی ہے۔  اب یہ نہ صرف مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے بلکہ غیرمسلموں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔‘

ڈاکٹر حسیب جعفری نے مزید بتایا کہ حیدرآباد کا گوشت ’تلنگانہ پوٹلہ‘ کافی لذیذ ہوتا ہے، ’اس گوشت سے مندی کافی ذائقہ دار بنتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بکرے کے گوشت سے جو رواز نکلتا ہے، یہ اس میں پکتی ہے اور اس کے سوپ میں گوشت کو گلایا جاتا ہے۔

عبداللہ نامی ایک شہری کے مطابق مندی، خبصہ، مغلوبہ، کنافہ اور اسید عرب ڈشز ہیں جن میں مصالحہ نہیں ہوتا۔ ’اس میں پیٹ خراب کرنے والی چیزیں استعمال نہیں ہوتیں، اس وجہ سے لوگ پسند کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس مندی میں زعفران، اصلی گھی، مصالحے، مٹن، چکن، مچھلی ہر چیز ہے، لہٰذا لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں اور دور دور سے کھانے آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ روز شام چار بجے سے صبح فجر تک لوگ اہل خانہ کے ساتھ کھانے آتے ہیں۔ چھٹیوں پر بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی اور لوگوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ لوگ یہاں سے کھا کر پارسل بھی لے کر جاتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا