جب سپریم كورٹ نے ’نظریہ ضرورت‘ كو زمین میں گاڑ دیا

سپریم کورٹ میں جج صاحبان نے پہلے تو ’ملے جلے‘ فیصلے اور انتخابات كروانے كا تاثر دیا اور جب فیصلہ آیا تو وہ عین ’آئین اور قانون‘ كے مطابق تھا۔

اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر واقع سپریم كورٹ آف پاكستان كی عمارت میں جمعرات کی صبح سے ہی لوگوں كا تانتا بندھا ہوا تھا جبكہ كونوں كھدروں اور كمروں میں چہ مہ گوئیاں اور سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔

پھر یہی عمارت جمعرات كی ہی رات نعروں سے گونج اٹھی اور ہر مہیا كھلی جگہ پر دستور پاكستان كی بالادستی كے متوالے اچھلتے كودتے اور ناچتے نظر آ رہے تھے۔

ماہ صیام كی اس گرم صبح کے طوع ہونے سے سہانی شام كے ڈھلنے تک كے اس سفر كو مملكت خداداد میں جمہوریت كے دیوانوں كی ایک ایسی مہم سے تعبیر كیا جا سكتا ہے جس كا اختتام دستور پاكستان كی برتری اور غلبے پر ہوا۔

پاكستان میں جمہور كی حاكمیت اور دستور كی بالادستی كے دلدادوں كی اس وقت خوشی كی انتہا نہ رہی جب سپریم كورٹ نے بدنام زمانہ نظریہ ضرورت كو زمین میں گاڑ دیا۔

راقم السطور جب جمعرات کی صبح نو بجے سپریم كورٹ پہنچا تو مركزی دروازے پر وكلا، سیاسی كاركنوں و رہنماؤں اور صحافیوں كی ایک بڑی تعداد نظر آئی جو كورٹ روم نمبر ایک كی طرف جانے كی كوشش كر رہے تھے۔

سپریم كورٹ كے كورٹ روم نمبر ایک میں اعلیٰ عدالت كے پانچ ركنی بینچ نے تین اپریل كو قومی اسمبلی كے ڈپٹی سپیكر كی رولنگ سے متعلق از خود نوٹس كی آخری سماعت کرنی تھی۔

كمرہ عدالت كی طرف جانے والے راستے كو بہت پہلے ہی خاص و عام كے لیے بند كر دیا گیا تھا اور صرف مخصوص افراد كو وہاں تک جانے كی اجازت دی جا رہی تھی۔

صحافیوں، وكلا اور سماعت میں دلچسپی ركھنے والوں كے لیے كورٹ رومز نمبر چھ اور سات میں انتظامات كیے گئے تھے جہاں بیٹھ كر بینچ كی كارروائی ساؤنڈ سسٹم كے ذریعے سنی جا سكتی تھی۔

ساڑھے نو بجے كے بعد شروع ہونے والی سماعت سے قبل سپریم كورٹ كی عمارت میں موجود ہر شخص كے چہرے پر تذبذب اور غیر یقینی عیاں تھی، ہر كوئی لارجر بینچ كے فیصلے سے متعلق اندازہ لگانے كی كوشش كر رہا تھا۔

وكلا اور صحافی اس سلسلے میں دوسرے لوگوں كی توجہ كے مركز تھے اور ان سے پوچھا جانے والا سوال ایک ہی تھا: ’فیصلہ كیا ہو سكتا ہے۔‘

خوش فہمیوں اور افواہوں كا جیسے ایک بازار گرم تھا، جس میں ’دستور كی فتح ہو گی،‘ ’ہم جیتیں گے،‘ ’تحریک انصاف كامیاب ہو گی،‘ ’اپوزیشن كو منہ كی كھانا پڑے گی،‘ ’قومی اسمبلی بحال ہو گی،‘ ’نظریہ ضرورت كا دوبارہ جنم‘ اور ’ملا جلا فیصلہ ہو گا‘ جیسے تبصروں كی گونج تھی۔

سماعت شروع ہوئی تو صدر مملكت كے علاوہ پاكستان تحریک انصاف، وزیراعظم، سپیكر و ڈپٹی سپیكر قومی اسمبلی اور اٹارنی جنرل آف پاكستان نے اپنے اپنے دلائل بینچ كے سامنے ركھے۔

سب سے طویل بحث اٹارنی جنرل آف پاكستان خالد جاوید خان نے كی جنہوں نے وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد سے متعلق عددی جنگ كی ایک منفرد تشریح پیش كرنے كی كوشش كی۔

جج صاحبان نے اٹارنی جنرل سے بیسیوں سوالات كیے، جن كے ذریعے وہ یقیناً صورت حال اور معاملات كی قانونی و دستوری نوعیت سجھنے كی كوشش كر رہے تھے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے قومی اسمبلی كے ڈپٹی سپیكر قاسم سوری كی تین اپریل كی رولنگ كو غیر آئینی تو قرار دیا لیكن قومی اسمبلی كی بحالی كی بجائے عام انتخابات كے آپشن كو بہتر گردانا۔

شام تین بجے كے بعد سماعت میں وقفے سے كچھ دیر قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے كچھ ایسے ریماركس دیے جن سے تاثر ملا كہ وہ ڈپٹی سپیكر كی رولنگ كو تو غلط سمجھتے ہیں لیكن قومی اسمبلی كی بحالی پر قائل نہیں ہیں۔

یہاں تک كہ ایک موقع پر چیف جسٹس نے وقفے سے پہلے كہہ دیا: ’اب ہم سماعت میں تكنیكی بحث نہیں بلكہ قومی مفاد كی بات كریں گے، كیوں كہ اسمبلی كی بحالی كی صورت میں ایوان كے اندر اور پورے ملک میں ہنگامہ ہو گا۔‘

حتی كہ انہوں نے پاكستان مسلم لیگ كے وكیل مخدوم علی خان كو مخاطب كر كے كہا كہ وقفے كے بعد عام انتخابات پر بات ہو گی۔

سماعت میں وقفہ ہوا اور كورٹ رومز میں موجود لوگوں نے جیسے یقین كر لیا كہ نظریہ ضرورت آیا كہ آیا۔

اس دوران شاید بینچ میں موجود پانچ ججوں كے علاوہ سپریم كورٹ كی عمارت میں موجود ہر شخص یہ سمجھنے لگا تھا كہ از خود نوٹس كا نتیجہ ملا جلا ہو گا اور عدالت ڈپٹی سپیكر كی رولنگ كو كالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابات كروانے كا حكم صادر كرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں تک كہ پاكستان پیپلز پارٹی كے وكیل فاروق ایچ نائک نے وقفے كے دوران میڈیا سے گفتگو میں بھی قومی اسمبلی كی بحالی كے امكانات كو كم سے كم قرار دیتے ہوئے كہا كہ عدالت انتخابات كا آپشن اپنانے والی ہے۔

وقفے كے بعد اٹارنی جنرل نے اپنی بحث مكمل كی اور عدالت نے مخدوم علی خان كو انتخابات كروانے سے متعلق دلائل دینے كی دعوت دی، جن كے مكمل ہونے پر عدالت نے سماعت كے آخر میں درخواست گزاروں بشمول میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری كو براہ راست عدالت كے سامنے بولنے كا موقع دیا۔

عام طور پر درخواست گزار اپنے وكلا كے ذریعے عدالت میں پیش ہوتے ہیں لیکن از خود نوٹس كی سماعت كرنے والے بینچ نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا۔

شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے سوال جواب كے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے سیاسی رہنماؤں كو انتخابات كے آپشن كے حق میں قائل كرنے كی كوشش كرتے نظر آئے۔

سماعت ختم كرنے سے قبل چیف جسٹس نے چیف الیكشن كمیشنر كو طلب كرنے كے علاوہ انتخابی اصلاحات سے متعلق حزب اختلاف كی سفارشات كا مسودہ بھی پیش كرنے كا حكم صادر كیا۔

ان احكامات نے ملے جلے فیصلے كے امكان پر تو گویا مہر ہی ثبت كر دی اور اس متعلق یقین كا گراف غیر معمولی بلندیوں كو چھونے لگا۔

چیف جسٹس نے شام تقریباً پونے چار بجے سماعت میں دوسرے وقفے كا اعلان كرتے ہوئے كہا كہ فیصلہ افطار كے بعد ساڑھے سات بجے سنایا جائے گا۔

دوسرے وقفے كے دوران بھی سپریم كورٹ حتی كہ سوشل میڈیا پر بھی بحث مباحثہ كرنے والوں نے یقین كرلیا كہ قومی اسمبلی بحال نہیں ہوگی یعنی ’ملا جلا‘ فیصلہ۔

ساڑھے سات بجے شروع ہونے والی سماعت كا آغاز آٹھ بجکر 25 منٹ پر ہوا جس كے شروع میں ہی چیف جسٹس نے چیف الیكشن كمشنر سكندر سلطان راجا كو روسٹرم پر طلب كركے عام انتخابات كے انعقاد سے متعلق سوالات كیے۔

پھر تقریبا ساڑھے آٹھ بجے وہ ہونا شروع ہوا جس كی توقع پورے دن كسی نے نہیں كی تھی یعنی چیف جسٹس نے بینچ كا فیصلہ پڑھتے ہوئے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیكر كی تین اپریل كی رولنگ اور اس كے نتیجے میں ہونے والے تمام اقدامات كو كالعدم قرار دے دیا۔

صرف یہ ہی نہیں بلكہ فیصلہ متفقہ تھا یعنی پانچ میں سے كسی جج كی طرف سے مخالفت نہیں ہوئی۔

شاید چند سیكنڈ تک تو صبح سے ’ملے جلے‘ فیصلے كی توقع كرنے والے گویا گنگ ہو كر رہ گئے، اپنے موبائل فونز پر تیزی سے انگلیاں چلاتے صحافی بھی حیران نظر آئے۔

كسی كو یقین نہیں آرہا تھا كہ پاكستان میں نظریہ ضرورت كو عدالت اس طرح جوتے كی نوک پر ركھ كر ہوا میں اچھال سكتی ہے۔

اور پھر اس كے بعد سپریم كورٹ كی عمارت میں موجود چہرے كھل اٹھے اور ہر طرف سے خوشی كے نعروں كی آوازیں بلند ہونے لگیں، ایک دوسرے كو مبارکباد دینے كا سلسلہ بھی چل پڑا، جبكہ منچلوں نے تو رقص بھی كیے۔

خوشی كے اس وقت بھی كچھ لوگ سپریم كورٹ كے پانچ ركنی بینچ كی حکمت عملی سے متعلق ضرور سوچ رہے تھے، جج صاحبان نے پہلے ملے جلے فیصلے اور انتخابات كروانے كا تاثر دیا اور جب فیصلہ آیا تو وہ عین آئین اور قانون كے مطابق تھا۔

یقیناً یہ سب كے لیے ایک خوش گوار حیرت تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست