نئے پاکستان کی آخری شام؟

رات عمران خان نے قوم سے خطاب کیا۔ اس کے مندرجات بتا رہے ہیں کہ یہ آخری خطاب تھا۔ تقریر وزیراعظم کی تھی لیکن اسلوب اپوزیشن لیڈر کا تھا۔ گویا مقرر بھی جانتا تھا کہ یہ نئے پاکستان کی آخری شام ہے۔ بہت جلد وہ پرانے پاکستان میں ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان آٹھ اپریل 2022 کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے (ویڈیو سکرین گریب/ عمران خان آفیشل فیس بک پیج)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:


حکومت آج سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے عدم اعتماد کی ووٹنگ کروا دے گی یا اس کے قانونی مشیر اسے کسی تازہ آئینی بحران سے دوچار کر دیں گے؟ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم یہ بات طے ہے کہ ہر دو صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلے گا کیونکہ جی کا جانا جب ٹھہر چکا ہو تو اسے جانا ہی ہوتا ہے۔

رات عمران خان نے قوم سے خطاب کیا۔ اس کے مندرجات بتا رہے کہ یہ آخری خطاب تھا۔ تقریر وزیراعظم کی تھی لیکن اسلوب اپوزیشن لیڈر کا تھا۔ گویا مقرر بھی جانتا تھا کہ یہ نئے پاکستان کی آخری شام ہے۔ بہت جلد وہ پرانے پاکستان میں ہوگا۔

حکومت کے پاس ووٹنگ سے بچنے کے آپشن تو اب بھی موجود ہیں، لیکن اگر ڈپٹی سپیکر کی غیر آئینی رولنگ سے یہ بلا نہیں ٹلی تو اب بھی کوئی پارلیمانی یا قانونی حربہ اسے نہیں ٹال پائے گا۔

آج ایک بار پھر ووٹنگ سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور معاملہ پھر سے عدالت لے جایا جاتا ہے یا ووٹنگ سے پہلے دھمکی آمیز خط پر اِن کیمرا سیشن کے نام پر ایوان میں کارروائی کو طوالت دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے اقدامات رخصتی کے ’شگن‘ بڑھا کر اس عمل کو قدرے طویل کرسکتے ہیں لیکن نتائج نہیں بدل سکتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ قوم سے ایک آدھ مزید خطاب کی مہلت مل جائے گی لیکن خطاب کے بعد کیا ہوگا؟ وہی رخصتی کہ سدا کی بادشاہی صرف اللہ کی ہے۔

تحریک انصاف کا معاملہ یہ ہے کہ ڈی چوک میں جشن منا رہی ہو یا احتجاج کر رہی ہو، اس کا متن ایک ہی ہوتا ہے۔ صرف عنوان بدل جاتا ہے۔

ہر دو صورتوں میں اس کی دلاوری کا قصہ ابرار الحق بیان کر چکے ہیں کہ ’کپتان خاں دے جلسے اچ اج میرا نچنے نوں جی کردا‘۔ دل تو پھر دل ہے جو تھوڑا پاگل سا ہوتا ہے۔ وہ اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے کہ جلسہ جشن کا ہے یا احتجاج کا۔ وہ ’نچنے‘ پر ہی مائل رہتا ہے۔

چار دن پہلے کارکنان کو جشن منانے کا حکم ملا، رات اسے عمران خان نے احتجاج کا عنوان دے دیا۔ یہ سلسلہ جس عنوان سے بھی چلتا رہے،  فی الوقت غیر اہم ہوگا۔

چنانچہ اصل سوال اس وقت یہ نہیں ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے، سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کیا کرنے جا رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت اب چراغ سحر ہے بجھا چاہتی ہے۔

سوال اب یہ نہیں کہ عمران خان کا نیا پاکستان مزید کیا کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کا پرانا پاکستان کیسا ہوگا اور کیا اس سے کوئی امید رکھی جا سکتی ہے۔ اب عمران نہیں بلکہ یہ حزب اختلاف ہوگی جو وقت کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔ اقتدار جس کے پاس ہو وقت اسی کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔

آنے والے دنوں میں حزب اختلاف اگر عدم اعتماد میں کامیاب ہوتی ہے اور اقتدار حاصل کر پاتی ہے تو اس کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ بہت واضح ہے اور اسے اسی پیمانے پر پرکھا جائے گا۔ یہی نکات اس کے لیے ایک چیلنج کے طور پر کھڑے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب سے پہلا چیلنج سماجی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا حزب اختلاف اسی پولرائزیشن کو آگے بڑھاتی ہے جسے عمران خان ایک پالیسی کے طور پر لے کر چلتے رہے۔ اگر حزب اختلاف بھی ردعمل میں نفرت اور ہیجان کے اسی عمل کو آگے بڑھاتی ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی ناکامی ہوگی اور اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا، کیونکہ پولرائزیشن کی بنیاد پر سماج کی تقسیم اور نفرت پر مبنی بیانیے کا سب سے بڑا فائدہ تحریک انصاف کو حاصل ہوگا۔

حزب اختلاف کی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ معاشرے کو اس ہیجان سے نکالے اور انتقام اور اشتعال کی بجائے سماج کی تعمیر کو مدنظر رکھے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ وہ یہ بھاری پتھر اٹھا پائے گی یا نہیں۔

دوسرا بڑا چیلنج انتخابی اصلاحات اور انتخابی عمل کا ہے۔ حزب اختلاف اگر اقتدار میں آتی ہے تو اس کی مدت مختصر ہوگی اور جلد ہی عام انتخابات کی جانب بڑھنا ہوگا۔

سوال یہ بھی ہے کیا وہ با معنی انتخابی اصلاحات کے ساتھ  ایسے انتخابات کو یقینی بنا سکے گی جس کے نتیجے میں پر امن اور معتبر انتقال اقتدار ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہارنے والا دھاندلی کے الزامات کے ساتھ ایک بار پھر سڑک پر ہو اور ’سلیکٹڈ‘ کے بعد ہم ’پلانٹڈ‘ کے بیانیے کو فروغ پاتا دیکھ رہے ہوں۔

تیسرا بڑا چیلنج معیشت کا ہے۔ شہباز شریف کے حالیہ بیان کا آزار بھی اسی سے جڑا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ Beggars can't be choosers یہ بات جتنی بھی درست ہو، سچ یہ ہے کہ قومی سطح کے رہنما کو ایسا بیان زیب نہیں دیتا۔ قوم کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنے والا قیادت کے لیے کیسے موزوں ہو سکتا ہے؟

یہی بات بہتر اسلوب میں بھی بیان کی جا سکتی تھی۔ شہباز شریف کو معیشت سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اس بیان کی کوئی ایسی توجیہہ پیش کرنا ہوگی جو اس بات کی تلخی کو ممکن حد تک کم کر دے۔ ورنہ یہ بیان ایک آسیب بن کر ان کا پیچھا کرے گا۔

چوتھے بڑے چیلنج کا تعلق اس عدم اعتماد کی شان نزول سے ہے۔ عوامی بیانیے کی حد تک عمران خان نے کامیابی سے یہ شان نزول بیان کر دی ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف امریکہ نے سازش کی ہے اور عدم اعتماد اسی سازش کا نتیجہ ہے۔ وہ اس پر ایک کمیشن بھی بنانے جا رہے ہیں۔ آج  ایوان میں اس پر مزید کارروائی ہو سکتی ہے۔

عمران خان کو بھی معلوم ہے کہ ایسے معاملات میں کمیشن بن بھی جائیں تو حقیقت سامنے نہیں آیا کرتی۔ ویسے بھی سیاست میں حقیقت سے زیادہ تاثر اہم ہوتا ہے اور عمران اپنے وابستگان کی حد تک کامیابی سے یہ تاثر دے چکے ہیں کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے نتیجے میں جا رہی ہے۔ عمران خان کی آئندہ سیاست کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہوگا اور حزب اختلاف اس تاثر کی نفی نہیں کر پاتی تو اسے بہت نقصان ہوگا۔

پانچویں اور آخری سوال کا تعلق حزب اختلاف کے باہمی اتحاد پر ہے۔ وقت بتائے گا کہ یہ اتحاد کسی اصول کی بنیاد پر ہے یا عمران خان کے متاثرین اپنے اپنے مفاد میں مل بیٹھے ہیں اور یہ وقت اب آنے ہی والا ہے۔ اقتدار ملنے کے بعد یہ باہم مل کر چل پاتے ہیں یا وزارتوں، عہدوں اور مناصب کو دیکھ کر ان کے باہمی اختلافات پھر سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ