امریکہ کی غلامی نہیں نیشنلٹی چاہیے

ہمیں بھی امریکی غلامی نہیں چاہیے، البتہ اِس غلامی میں اگر امریکی پاسپورٹ بھی ساتھ مل جائے توکیا کہنے، بندہ دعائیں دے گا!

ایک خاتون 23 جنوری 2007 کو اپنے پاسپورٹ کے ہمراہ شکاگو جانے کے لیے فلائٹ بورڈنگ کی قطار میں کھڑی ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

میرا دوست ’ایکس‘ امریکہ میں رہتا ہے اور بے حد محب وطن ہے، یعنی اسے امریکہ سے بہت محبت ہے اور ہونی بھی چاہیے امریکہ نے اسے وہ کچھ دیا جو پاکستان نہیں دے سکتا تھا۔

میری مراد گرین کارڈ اور امریکی پاسپورٹ سے ہے۔ یہاں پاکستان میں اسے کوئی منہ نہیں لگاتا تھا لیکن الحمد اللہ جب سے وہ امریکہ گیا ہے وہاں بھی اسے کوئی نہیں پوچھتا البتہ اتنا فرق ضرور پڑا  ہے کہ اب اسے بیئر کی بوتل اس ڈر سے چھپا کرنہیں لے جانی  پڑتی کہ کہیں کوئی پولیس والا بیچ چوراہے میں اس کی پتلون نہ اتروا دے۔

امریکہ میں وہ بلاخوف و خطر اپنے گھر کے پاس واقع ایک بار میں جاتا ہے وہاں غم غلط کرتا ہے اور پھر اسی بار میں بیٹھ کر ٹویٹ کرتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کیوں نہیں ہوتا ہم امریکہ کی غلامی سے کب آزاد ہوں گے؟

اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ لڑنے والے مرد مجاہد کا ساتھ کون دے گا؟ پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی ہی تمام برائیوں کی جڑہے اور تمام سیاست دان بدعنوان ہیں۔

اگلے روز اس سے فون پر بات ہوئی، موصوف بہت غصے میں تھے، چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ پاکستان کا مستقبل تاریک ہے، تم لوگ کبھی غلامی کی زنجیریں نہیں توڑ سکتے، کبھی خود دار اور غیرت مند قوم نہیں بن سکتے، انڈیا کو دیکھو کس قدر غیرت مند ملک ہے، مجال ہے امریکہ یا یورپ اسے کوئی حکم دے سکے، وہ اپنی پالیسیاں خود بناتے ہیں، ایک ہم ہیں جو 1947 سے لے کر آج تک آزاد نہیں ہو سکے۔

ابھی اس کا پکا راگ جاری تھا کہ میں نے بیچ میں سے بات اچک لی اور پوچھا کہ اس کے ٹیکس چوری کے مقدمے کا کیا بنا۔ وہ شاید اس سوال کے لیے تیار نہیں تھا، امریکہ کی آئی آر ایس کو موٹی سی گالی دینے کے بعد کہنے لگا کہ انہوں نے میرے بینک اکاؤنٹ میں سے سارے پیسے نکلوا لیے، شاید جیل بھی بھجوا دیتے مگر میرے وکیل نے آخری وقت میں مجھے قائل کر لیا کہ جرمانہ دے کر جان بخشی کروا لوں اور یوں میں جیل جانے سے بچ گیا۔

اس کے بعد بات کا رُخ کسی اور جانب مڑ گیا اور وہ مجھے ’سنگل مالٹ‘ کے فضائل بیان کرنے لگا۔

ہر شخص کی ذات میں تضادات ہوتے ہیں، یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، مگر سمندر پار پاکستانیوں کی بات ہی الگ ہے، خاص طور سے وہ جو بالکل ایک ’فرقے‘ کی سی سوچ رکھتے ہیں۔

کینیڈا میں رہتے ہیں اور پاکستان میں سرعام پھانسیوں کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ کینیڈا میں سزائے موت ختم ہو چکی ہے۔ برطانیہ میں رہتے ہیں اور پاکستانی پاسپورٹ کو ’احتجاجاً‘ نذر آتش کرتے ہیں، حالانکہ آگ انہیں برطانوی پاسپورٹ کو لگانی چاہیے۔

امریکہ میں رہتے ہیں اور نعرے بازی پاکستانی اداروں کے خلاف کرتے ہیں، اپنے حلقے کے رُکن کانگریس کو خط لکھ کر احتجاج کرنے کی زحمت نہیں کرتے کہ بھائی اپنی حکومت کی پاکستان میں مداخلت بند کرواؤ۔

یورپ میں رہتے ہیں اور اس بات پر غمگین ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کیوں نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ  ایسے ہی کسی شخص نے مجھے رقت آمیز ای میل بھیجی جس میں انہوں نے اس بات کا نوحہ پڑھا کہ پاکستان، جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، وہاں اسلام نام کی کوئی چیز نہیں لہٰذا وہ با امر مجبوری برطانیہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

انہوں نے لکھا کہ میں اپنے کالموں میں مادر پدر آزادی کی حمایت کرنے کی بجائے شرعی نظام کے نفاذ کے لیے لوگوں کو راغب کیا کروں۔ میں نے موصوف کو جواب میں لکھا کہ حضرت آپ سے غلطی ہو گئی آپ کو برطانیہ کی بجائے افغانستان  کی طرف ہجرت کرنی چاہیے تھی شریعت افغانستان میں نافذ ہے ناکہ برطانیہ میں اور رہی بات اس فقیر کے کالموں کی تو اگر میرے کالموں سے ہی انقلاب آنا ہے تو بہتر ہے کہ صلح کرلیں!

ویسے سچی بات یہ ہے کہ میں نے بیرون ملک پاکستانیوں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سخت باتیں لکھ دی ہیں۔

وہاں بسنے والے تمام لوگ ایسے نہیں ان کے دل میں بھی پاکستان کا اتنا ہی درد ہے جتنا ہمارے دل میں بلکہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ انہیں پاکستان کی ہم سے زیادہ فکر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں جب بھی باہر کا سفر کرتا ہوں تو وہاں ان لوگوں سے ملاقات رہتی ہے۔ انہیں صحیح معنوں میں اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ ان کا ملک کیوں اس طرح ترقی نہیں کر سکتا جیسی ترقی یورپ اور دیگر ممالک میں ہے۔

ان کا یہ دکھ سمجھ میں آتا ہے مگر اس دکھ کو دور کرنے کے لیے وہ جو دوا تجویز کرتے ہیں مجھے اس سے اختلاف ہے۔

میں جب بھی ان لوگوں سے بحث کرتا ہوں تو وہ یورپ کے نظام کی مثالیں دیتے ہیں کہ یہاں کوئی سفارش اور اقربا پروری نہیں چلتی کسی حکمران کا کوئی پروٹوکول نہیں، سوشل سیکورٹی کا نظام ایسا ہے کہ کوئی غریب بھوکا نہیں سوتا، سیاحت سے یہ ملک اربوں یورو کماتے ہیں، ان کی یونیورسٹیوں میں علم کی شمعیں روشن ہیں، ان کا مقامی حکومتوں کا نظام ایسا ہے کہ یونین کونسل کا چیئرمین فیصلہ کرتا ہے کہ علاقے سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس کیسے خرچ ہو گا۔

یہ تمام باتیں ٹھیک ہیں مگر یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یورپ نے یہ نظام سینکڑوں سال کی جدو جہد کے بعد تشکیل دیا، پہلے انہوں نے بادشاہ کے اختیارات کم کیے، پھر عوام کو منتقل کیے، پھر پارلیمان کو با اختیار بنایا، آزادی اظہار کے لیے جنگیں لڑیں، چرچ کو سٹیٹ سے علیحدہ کیا، نشاة ثانیہ کی بنیاد رکھی، فلسفے اور ادب کو فروغ دیا، روشن خیالی کی تحریک چلائی، سوشل کنٹریکٹ کا تصور دیا۔

یہ تمام کام کرنے میں انہیں کئی سو سال لگے پھر کہیں جا کر وہ اس نظام کی داغ بیل ڈالنےمیں کامیاب ہوئے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ ’جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سی پارہ‘۔

لیکن ظاہر ہے کہ اتنا وقت ہمارے پاس نہیں سمندر پار پاکستانیوں نے اس لحاظ سے بہتر فیصلہ کیا کہ بغیر کسی جدو جہد کا تردد کیے وہ اس ملک میں جا بسے جہاں انہیں پکی پکائی کھیر مل گئی، اب وہ کھیر کھاتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ امریکی غلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے جدو جہد کیسے کرنی ہے۔

وہ ہمارے بھائی ہیں، ان کا کہا سر آنکھوں پر، ہمیں بھی امریکی غلامی نہیں چاہیے، البتہ اس غلامی میں اگر امریکی پاسپورٹ بھی ساتھ مل جائے توکیا کہنے، بندہ دعائیں دے گا!

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ