عمران خان اور امریکہ: ماضی سے حال تک

ایک تاثر بن گیا ہے کہ عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور اشرافیہ امریکہ سے محبت کرتی ہے۔ اس لیے سیاستدانوں کو جب جب امریکی مخالفت کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ جلسوں میں بھی امریکہ کو للکارنے لگتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں 22 جولائی 2019 کو ایک ملاقات کا منظر جس میں دائیں جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بائیں جانب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان موجود ہیں (تصویر اے ایف پی)

پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ نفرت اور محبت دونوں پر مبنی ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ایک تاثر بن گیا ہے کہ عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں ہے اور اشرافیہ امریکہ سے محبت کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سیاست دانوں کو جب جب امریکی مخالفت کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ جلسوں میں بھی امریکہ کو للکارنے لگتے ہیں اور اپنی واہ واہ کروا لیتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے راجہ بازار راولپنڈی میں ایک کاغذ کو پھاڑنے کا واقعہ تو تاریخ کاحصہ بن گیا ہے جب انھوں نے ایک خط کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی دھمکی قرار دے کر جلسے میں لہرایا تھا۔

عمران خان بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو بھٹو نے کیا تھا اور اس سلسلے میں اپنے دورہ روس کا پس منظر بیان کرتے ہیں حالاں کہ پاک امریکہ تعلقات اس سے پہلے ہی سرد مہری کا شکار تھے۔

جب سے بائیڈن صدر بنے انہوں نے پاکستان کو ’نو لفٹ‘ کا بینر لگا رکھا ہے۔ پاکستان کی جانب سے کئی وفود واشنگٹن جا کر اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر عمران خان اب واشنگٹن سے کال کا انتظار ختم کر کے اسے ایک سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت بھی کچھ اسی قسم کی تاثر دیتی رہی ہے۔ انہوں نے کھل کر امریکہ کا نام تو نہیں لیا مگر ان کے بیانات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے خلاف دھرنوں اور پھر نواز شریف کی معزولی میں امریکہ کا ہاتھ تلاش کر رہے ہیں۔

2014 میں مسلم لیگ کے وزرا یہ کہتے پھرتے رہے کہ ان دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہو گیا ہے جسے اس وقت سی پیک کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا تھا۔

اگلے عام انتخابات میں جب پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی تو سب سے پہلا نشانہ سی پیک بنا۔ اس کے بہت سے منصوبے نہ صرف روک دیے گئے بلکہ عمران خان کے ایک مشیر نے ان منصوبوں پر بھاری بدعنوانی کا الزام بھی لگا دیا جس پر چین نے انتہائی ناراضی کا اظہار کیا۔

اس وقت ن لیگ کے سرکردہ رہنما نجی محفلوں میں یہ مؤقف اختیار کرتے پائے گئے کہ ان کی حکومت سی پیک کی وجہ سے ختم کی گئی ہے اسی لیے نئی حکومت نے آتے ہی سی پیک کو ’رول بیک‘ کر دیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سی پیک جیسے سٹریٹیجک منصوبے میں ضمانت کار اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنر ل راحیل شریف تھے۔

بعد میں آنے والی قیادت کو شاید مختلف حالات کا سامنا رہا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ نہ صرف سست روی کا شکار ہو گیا بلکہ کافی حد تک غیر موثر بھی ہو گیا۔

اب وہی عمران خان اپنی حکومت کے ختم ہونے کے پیچھے امریکی ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اس خطے میں امریکی پالیسیوں کے خلاف سخت تنقید کی ہے۔ عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر مشرف دور میں ڈرون حملوں کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او چلاتے تھے جس کی مالی مدد کرنے والے برطانوی ادارے سے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان بھی منسلک تھیں۔ شاید یہی تعلق بعد میں عمران خان اور شہزاد اکبر کے رابطوں کا ذریعہ بن گیا تھا۔

عمران خان 2012میں شائع ہونے والی خود نوشت ’میں اور میرا پاکستان‘ میں واضح طور پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’امریکہ کا منہ کالا ہو گیا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ افغانستان اور عراق پر اس نے چڑھائی کی بلکہ اس لیے بھی کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں بے رحمی سے ڈرون حملوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ عراق پر حملے کے لیے اس نے انتہائی خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی اور القاعدہ سے عراق کے تعلقات کی کہانی گھڑی۔ اس منافقت اور بد دیانتی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ششدر کر کے رکھ دیا۔ صدام حسین کا اسامہ بن لادن کی اسلامی بنیاد پرستی سے کیا تعلق تھا؟‘

عمران خان نے مزید لکھا ہے کہ ’اس کے علاوہ امریکہ، ایران عراق جنگ میں عراق کی پشت پناہی کرتا رہا تھا۔ اس بات کو لوگ کس طرح بھول جاتے ہیں کہ جو امریکہ عراق میں جمہوریت کے لیے بےتاب ہے، پچھلے کئی عشروں سے مشرق وسطی میں آمروں کی ڈٹ کر حمایت کرتا آیا ہے۔ سرد جنگ کے دنوں سے امریکہ تیسری دنیا میں آمروں کی حمایت کے لیےکمیونزم کے خطرے کا ڈھنڈورا پیٹتا آیا تھا۔آج اسلامی بنیاد پرستی کا ہو اکھڑا کیا جا رہا ہے۔‘

عمران خان بھی اقتدار کی نزاکتوں سے واقفیت حاصل کرتے گئے اور برسر اقتدار آ کر امریکہ کے خلاف اس زبان کا استعمال کبھی نہیں کیا تھا جو وہ جلسوں اور اپنی تحریروں میں کرتے رہے تھے۔

عمران خان نے اپنے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں صدر ٹرمپ سے اچھے تعلقات استوار کر لیے تھے حالاں کہ برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے بیانات نہیں دیے تھے۔

واشنگٹن کے بعض سفارتی حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کی جانب سے عمران خان کے ساتھ ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے امریکی الیکشن سے پہلے ٹرمپ کے جیتنے کی پیش گوئی کی تھی اور کسی حد تک ٹرمپ کی مدد بھی کی تھی۔ یہی وہ خلش ہے جو صدر بائیڈن ابھی تک رکھے ہوئے ہیں۔

عمران خان نے بھی دورہ روس کے بعد امریکی مخالفت کے کارڈ کو کھل کر کھیلنا شروع کر دیا ہے اور اس کارڈ کی حساسیت نے پاکستانی اشرافیہ کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ ماضی میں اس کارڈ کی داستان ذوالفقار علی بھٹو نے لکھی تھی جو اڈیالہ سے گڑھی خدا بخش تک جاتی ہے اور اب اگلی داستان عمران خان لکھ رہا ہے۔

بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔

2013 کے انتخابات ہوئے تو اپنی انتخابی مہم سے پہلے عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں انہیں نیویارک میں تحریک انصاف کے پہلے بانی کارکن محمود احمد نے نیویارک کے ساؤنڈ ویو سٹوڈیو میں ایک استقبالیہ دیا تھا۔

استقبالیہ میں شرکت کے موقع پر وہ اس میز پر آ کر بیٹھ گئے تھے جہاں میرے ساتھ نیویارک میں موجود کالم نگار طیبہ ضیا چیمہ بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس ملاقات میں انہوں نے نہ صرف سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنی ملاقاتوں کا اعتراف کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے امریکیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان جنگ میں میری پارٹی ان کی کیا مدد کر سکتی ہے۔

میں نے اور طیبہ ضیا چیمہ نے اس گفتگو سے ایک قیاس یہی لیا تھا کہ انھیں کلیئرنس لینے کے لیے پاکستانی حکام نے خود امریکہ بھیجا ہے۔ بعد میں جب انتخابی نتائج آئے تو ان کی جماعت ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں تو دوسرے نمبر تھی لیکن قومی اسمبلی میں جیتی گئی سیٹوں میں تیسرے نمبر پر آئی تھی۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  

ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ