عدم اعتماد کے بارے میں دھمکی آمیز خط میں صداقت نہیں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے سوالنامے کے جواب میں حالیہ جلسے میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی باقاعدہ تردید کردی۔

وزیراعظم عمران خان نے27 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں مبینہ طور پر ایک خط لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے (ویڈیو سکرین  گریب/ پی ٹی وی)

امریکی محکمہ خارجہ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خلاف بیرون ملک سے آنے والے ’دھمکی آمیز خط‘ کی بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا ہے کہ ’ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔‘

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے سوالنامے کے جواب میں ان الزامات کی باقاعدہ تردید کی۔

وزیراعظم عمران خان نے اتوار (27 مارچ) کو اسلام آباد میں ہونے والے ایک جلسے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ’ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔‘

یہ مبینہ خط لہراتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا: ’ہمارے ملک کو ہمارے پرانے لیڈروں کے کرتوتوں کی وجہ سے دھمکیاں ملتی رہیں۔‘

’ہمارے ملک میں ملک کے اندر موجود لوگوں کی مدد سے حکومتیں تبدیل کی جاتی رہیں۔ اپنے لوگوں کی مدد سے حکومتوں کو تبدیل کیا گیا۔‘

وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی ذکر کیا، جن کے بارے میں پاکستان میں عام تاثر ہے کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا: ’ذوالفقار علی بھٹو نے جب ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تو فضل الرحمٰن اور نواز شریف کی اس وقت کی پارٹیوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور ملک میں آج جیسے حالات بنا دیے گئے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’خارجہ پالیسی کو مروڑنے کی باہر سے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سازش کا ہمیں پچھلے کئی مہینوں سے پتہ ہے۔‘

سوالنامے کی تفصیل

انڈپینڈںٹ اردو کی جانب سے امریکی محکمہ خارجہ کو بذریعہ ای میل بھیجے گئے سوالنامے کی تفصیل کچھ یوں ہے:

- کیا محکمہ خارجہ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیان سے واقف ہے؟

- کیا محکمہ خارجہ نے بذریعہ اسلام آباد سفارت خانہ پاکستان سے اس حوالے سے کوئی رابطہ کیا ہے؟

- محکمہ خارجہ کا ان الزامات کے حوالے سے کیا ردعمل ہے؟

سوالنامے کے جواب میں محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا: ’ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے‘۔

عمران خان کے مغرب مخالف بیانات

حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان نے کئی موقعوں پر مغرب خصوصاً امریکہ مخالف موقف اختیار کیا ہے۔

رواں برس فرروی میں عمران خان کے دورہ روس کے دورے کے بعد ان سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا: ’ہم امریکہ کی غلامی نہیں کریں گے۔‘

جب اس حوالے سے وائٹ ہاؤس سے سوال کیا گیا تو ترجمان نے جواب دینے سے گریز کیا تھا۔

27 مارچ کے جلسے میں بھی وزیراعظم نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا تھا: ’ہم کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ ہم سب سے دوستی کریں گے، غلامی نہیں کریں گے۔‘

وزیراعظم نے جلسے میں مزید کہا: ’ہمیں پتہ ہے کہ کن کن جگہوں سے باہر سے ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔‘

جلسے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اے آر وائے نیوز سے گفتگو کے دوران کہا تھا: ’ہمیں جو پیغام ملا وہ ہم نے وزیراعظم سے بھی شیئر کیا اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی شیئر کیا۔‘

وزیر خارجہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کی یہ خط دفتر خارجہ کو موصول ہوا تھا۔ جب ان سے مزید پوچھا گیا کہ ’کیا پاکستان کو یہ بھی کہا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان روس کا دورہ نہ کریں؟‘ تو شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ روس دورے پر تحفظات تھے، جن پر پاکستان نے اپنا موقف سامنے رکھا تھا۔

دوسری جانب گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا تھا کہ وزیراعظم نے خط چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھانے کی پیشکش کی ہے۔

اسد عمر سے ہی گذشتہ روز جب  اے آر وائے نیوز کے شو ’پاور پلے‘ میں اینکر پرسن ارشد شریف نے ماضی میں میمو گیٹ کا حوالے دیتے ہوئے سوال کیا کہ ’یہ خط سپریم کورٹ کو کس قانون کے تحت بھیجا جائے گا اور کیا یہ خط سیلڈ لفافے میں سپریم کورٹ میں ہی پڑا رہے گا؟‘  اس پر اسد عمر نے جواب دیا: ’یہ مراسلہ ذاتی نہیں بلکہ سرکاری ہے۔‘

واضح رہے کہ میمو گیٹ تنازعے میں بھی امریکی جنرل مائیک مولن کو ایک خط لکھا گیا تھا۔

اس تمام بیانیے سے اس تاثر کی تقویت ملی کہ حکومت اگرچہ نام نہیں لے رہی مگر ذکر امریکہ کا ہی کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور میڈیا رپورٹس میں یہ بحث بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستانی حکومت جس ملک کا نام کھل کر نہیں لے رہی وہ امریکہ ہے۔

صحافی سلیم صافی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ عمران خان دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’امریکہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔‘

اسی طرح ایکسپریس نیوز سے منسلک ایک اور صحافی اور اینکر پرسن کامران یوسف نے بھی دعویٰ کیا کہ یہ خط دفتر خارجہ کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہوا ہے۔

صحافی ارشد شریف نے بھی اپنی ٹویٹ میں امریکہ کا ذکر کیا تھا۔

سما نیوز کے اینکر پرسن عمران ریاض، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ خط کے مواد سے واقف ہیں، کی ٹویٹ میں بھی امریکہ کا نام لیا گیا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو اسلام آباد میں الیکٹرانک پاسپورٹ کے اجرا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مبینہ دھمکی آمیز خط آج سینیئر صحافیوں اور اتحادی رہنماؤں کے ساتھ شیئر کریں گے۔

اسلام آباد میں بدھ کو ای پاسپورٹ کے اجرا کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف باہر سے سازش کی جا رہی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا: ’اس سے قبل ایک فون کال پر لوگ ملک کو باہر سے کنٹرول کرتے تھے اور ہم سے قومی مفاد کے خلاف چیزیں منواتے تھے، انہیں برداشت نہیں ہے کہ ملک میں کوئی ایسی لیڈرشپ آئے جو ملک کے مفاد میں فیصلے کرے۔‘

تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا: ’میں کہہ چکا ہوں کہ میرے پاس ڈاکومنٹ ہے اور آج میں وہ سینیئر صحافیوں کو دکھاؤں گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی ڈراما ہو رہا ہے، کوئی ڈراما نہیں ہورہا، ہم صرف اپنے ملک کے مفاد کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں اس لیے سب کو بتا نہیں سکتے تھے کہ کون سے ممالک یا کون لوگ تھے جنہوں نے دھمکی دی ہے۔‘

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ لوگ انجانے میں سازش کا حصہ بن رہے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کتنی بڑی سازش کا حصہ ہیں لہذا وہ اپنی اتحادی جماعتوں میں سے ایک نمائندے کو بلا کر انہیں بھی وہ خط دکھائیں گے جس کا ذکر انہوں نے اسلام آباد کے جلسے کے دوران کیا تھا۔

عمران خان نے کہا: ’ان کے اتحادی جو چاہیں فیصلہ کریں لیکن وہ دیکھیں کہ کہیں وہ بڑی بین الاقوامی سازش کا حصہ تو نہیں بن رہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست