ایک سیاسی جماعت کو دوسری پر ترجیح نہیں دیتے: امریکہ

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہم آئینی جمہوری اصولوں کی پرامن پاسداری کی حمایت کرتے ہیں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پریس بریفنگ کے دوران عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا (اے ایف پی)

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے غیرملکی مداخلت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم آئینی جمہوری اصولوں کی پرامن پاسداری کی حمایت کرتے ہیں۔‘

پیر کو ہونے والی پریس بریفنگ کے دوران پوچھے گئے سوال پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ان الزامات میں بالکل کوئی سچائی نہیں ہے۔‘

پریس بریفنگ کے کے بالکل اختتام پر ترجمان محکمہ خارجہ سے سوال کیا گیا کہ اس وقت پاکستان میں لگتا ہے کہ غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو معزول کرنے کی کوشش کے پیچھے آپ کا ہاتھ تھا لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ کیا آپ کے پاس اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے کہنے کو؟

اس سوال پر محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ’جیسا کہ آپ نے گذشتہ ہفتے مجھ سے سنا، ہم آئینی جمہوری اصولوں کی پرامن پاسداری کی حمایت کرتے ہیں۔‘

نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’یہ پوری دنیا میں ایسا ہی ہے اور پاکستان میں بھی ایسا ہی معاملہ ہے، ہم ایک سیاسی جماعت کو دوسری سیاسی جماعت پر ترجیح نہیں دیتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم قانون کے تحت مساوی انصاف کے وسیع تر اصولوں، قانون کی حکمرانی کے اصولوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘

پاکستان میں گذشتہ چند روز سے ایک ’دھمکی آمیز‘ خط نہ صرف موضوع بحث ہے بلکہ اسی خط کو بنیاد بناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی متحدہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر چکے ہیں۔

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے فوراً بعد ہی اتوار کو وزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دی جو انہوں نے منظور کر لی اور نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا۔

اسی ’دھمکی آمیز خط‘ پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی ہو چکا ہے جہاں اس خط میں استعمال کی جانے والی زبان پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں خط کے حوالے سے پہلے امریکہ کا نام لیا اور فوراً ہی کہہ دیا کہ ’کسی اور باہر کے ملک‘ نے بھیجھا ہے۔

تاہم امریکہ پہلے ہی ایسے تمام الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خلاف بیرون ملک سے آنے والے ’دھمکی آمیز خط‘ کی بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔‘

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے سوالنامے کے جواب میں ان الزامات کی باقاعدہ تردید کی۔

دوسری جانب روس کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فروری میں جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ماسکو کے دورے کی تیاری کر رہے تھے تو امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کو طلب کیا کہ وہ نہ جائیں لیکن پاکستان نے درخواست قبول نہیں کی۔

روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسے پاکستانی میڈیا سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ایک سینیئر امریکی اہلکار ڈونلڈ لو نے مبینہ طور پر پاکستانی سفیر اسد مجید سے بات کی ہے۔

روسی وزارت خارجہ کے مطابق صورتحال یہ ثابت کر رہی ہے کہ امریکہ نے عمران خان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وزیراعظم کی پارٹی کے کچھ اتحادی اچانک اپوزیشن میں شامل ہوگئے ہیں اور اسی طرح وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش کی گئی ہے۔

روس کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ یہ ’اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایک آزاد ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی شرمناک کوشش ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ