بلوچستان: مٹی کے مٹکے جن کا پانی تین سال تک ٹھنڈا رہتا ہے

بلوچستان کا ضلع کچھی اپنے آثار قدیمہ کے باعث تو مشہور ہے ہی لیکن کوزہ گری کا فن بھی یہاں کی خاصیت تھی، جو اب معدومی کی طرف گامزن ہے۔

بلوچستان کا ضلع کچھی اپنے آثار قدیمہ کے باعث خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پر مہرگڑھ تہذیب کے آثار بھی موجود ہیں، جن کے بارےمیں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی قدیم تہذیب تھی۔

اس ضلع میں کچھ ایسے فنون بھی موجود ہیں، جو جدت اور زمانے کی ناقدری کے باعث معدومی کا شکار ہیں۔ ان ہی میں سے ایک کوزہ گری بھی ہے۔

زمانہ قدیم میں گنداواہ، شوران، مٹھڑی، بھاگ اور حاجی شہر میں کوزہ گری کے ماہر ہوتے تھے اور وہ مٹی کے مختلف برتن اور مٹکے بناتے تھے، جو صوبے بھر میں تقسیم ہوتے تھے۔

اب صرف کوزہ گری کے فن سے وابستہ چند افراد بھاگ اور مٹھڑی میں رہ گئے ہیں اور ان کی بھی نئی نسل اس کام کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

خالق داد بھی ایسے ہی کاریگروں میں سے ایک ہیں، جو بچپن سے اپنے والد کے فن کو آگے لے جارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی تیسری نسل ہے۔ پہلے ان کے دادا، پھر والد اور اب وہ خود اس فن سے منسلک ہیں۔

خالق داد کہتے ہیں کہ بھاگ شہر میں بننے والے مٹی کے برتن اور مٹکے اپنی مثال آپ ہیں، جنہیں خریدنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے، لیکن اب ان کے خریدار کم ہوگئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ خاص مٹی ہے، جو ہم یہاں کے کھیتوں سے نکالتے ہیں۔ یہ زمین کے اندر کی مٹی ہوتی ہے، جو ہم محنت سے نکالتے ہیں۔ پہلے ہمیں کوئی نہیں روکتا تھا۔ اب لوگ کھیتوں سے مٹی نہیں نکالنے دیتے۔‘

خالق داد کے بقول: ’اس مٹی کی خوبی یہ ہےکہ اس سے بننے والے مٹکے اور دیگر برتن بہت پائیدار اور مضبوط ہونے کے ساتھ اس میں پانی بھی بہت ٹھنڈا رہتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کو کہیں بھی لے جائیں اس کا پانی ہر جگہ ٹھنڈا ہوگا۔ ’باقی مٹی کے مٹکے تین مہینے تک پانی ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ہماری زمین کے مٹی کے مٹکے تین سال تک پانی ٹھنڈا کریں گے۔‘

خالق داد کے مطابق: ’پہلے ہمارے پاس کام بہت ہوتا تھا۔ اب مٹی کے مٹکے اور دیگر برتن بنانے کے آرڈر بہت کم ملتے ہیں۔ اگر کوئی آرڈر آتا ہے تو ہم کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم بےکار بیٹھے رہتے ہیں۔‘

مٹی سے برتن بنائے کیسے جاتے ہیں؟

خالق داد نے بتایا کہ ’پہلے ہم کھیتوں میں بالکل نیچے سے مٹی نکالتے ہیں۔ جس کو گدھا گاڑی کے ذریعے اپنی دکان پر پہنچاتے ہیں۔ پھر اس میں لکڑی کا برادہ شامل کرتے ہیں۔‘

’اس کے بعد مٹی کو بھٹی میں برادے اور گوبر کے ذریعے پکاتے ہیں، جس کے بعد یہ اس سے کوئی بھی چیز بنائی جاسکتی ہے۔‘

خالق داد کے مطابق ان کے والد بتاتے تھے کہ ’یہاں پر کوزہ گروں کی 40 سے زائد دکانیں تھیں۔ بہت بڑا کاروبار تھا۔ لوگ آتے تھے اور خریداری کرتےتھے، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ یہاں ضلع کچھی کی تحصیل بھاگ میں صرف چار دکانیں رہ گئی ہیں۔ باقی تمام ختم ہوگئیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ گنداوا، شوران میں اس کے کاریگر نہیں ہیں۔ مٹھڑی کے علاقے میں کچھ رہ گئے ہیں جبکہ بھاگ اور جاجی شہر کے علاقے اس کام کے مراکز میں شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کام کے ختم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ نئی نسل ہمارے کام اور زندگی کے طور طریقوں سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ اس کام کو سیکھنے اور کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

’ہمارے بچے اب مشین کی کاریگری، تعلیم حاصل کرنے، بال کاٹنے کے کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ یہ کام نہیں کر رہے۔ اس لیے کچھ وقت کے بعد اس کام کو کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا