کابل: سکولوں کو نشانہ بنانے والے دھماکوں میں چھ شہری ہلاک

عینی شاہدین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ خودکش بمبار نے سکول کے وسیع و عریض احاطے میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں ایک ہزار طلبہ کی گنجائش ہے۔ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ دھماکے کے وقت سکول میں کتنے بچے تھے۔

کابل میں طبی عملہ ایک زخمی نوجوان کو ہسپتال کے اندر سٹریچر پر منتقل کر رہا ہے، 19 اپریل 2022 کو ایک شیعہ ہزارہ محلے میں لڑکوں کے سکول میں دو بم دھماکوں کے بعد کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے (اے ایف پی)

کابل پولیس نے کہا ہے کہ منگل کو نواحی علاقے کے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے والے دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے جن میں طلبہ بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دھماکوں میں 24 افراد زخمی ہوئے۔

دوسرا دھماکا اس وقت ہوا جب امدادی کارکن پہلے دھماکے سے زخمیوں کو ہسپتالوں میں لے جانے کے لیے پہنچے۔ سکول کے ایک طالب علم، سعید رحمت اللہ حیدری نے کہا، ’ہمارے کچھ دوست ہاتھوں سے محروم ہوگئے ہیں، جب کہ کچھ خون میں لت پت تھے۔‘

جبکہ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران اور شہر کے ایمرجنسی ہسپتال کا کہنا ہے کہ یکے بعد دیگرے تیزی سے ہونے والے دھماکوں کی تحقیقات کی جا رہی ہے اور مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ 

یہ دھماکے کابل سے کئی کلو میٹر دورزیادہ تر شیعہ آبادی والے علاقے دشتِ برچی میں واقع عبدالرحیم شہید ہائی سکول کے اندر اور ممتاز ایجوکیشن سینٹر کے قریب ہوئے۔ ممتاز سینٹر میں فوری طور پر کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

دو منزلہ ہائی سکول کی طرف جانے والی تنگ گلی میں موجود گارڈز نے بتایا کہ انہوں نے 10 لوگوں کی لاشیں دیکھیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک ویڈیو جرنلسٹ نے سکول کے اندر دیواروں پر خون کے نشانات ہوئی، جلی ہوئی کتابیں اور بچوں کے جوتے دیکھے۔

اے پی نے علاقے میں کئی پرائیویٹ گارڈز سے بات کی لیکن انہوں نے علاقے کو گھیرے میں لینے والی طالبان سکیورٹی فورس کے خوف سے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عینی شاہدین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ خودکش بمبار نے سکول کے وسیع و عریض احاطے میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں ایک ہزار طلبہ کی گنجائش ہے۔ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ دھماکے کے وقت سکول میں کتنے بچے تھے۔

کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے اے ایف پی کو بتایا کہ عبدالرحیم شاہد اسکول کے باہر حملہ دو دیسی ساختہ بموں سے ہوا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔

انہوں نے بعد میں بتایا کہ اسی علاقے میں ایک قریبی انگریزی زبان کے مرکز پر بھی ایک دستی بم پھینکا گیا، جس سے ایک شخص زخمی ہوا۔

دو ہسپتالوں نے کہا کہ وہ 24 زخمی مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

زخمیوں کا علاج کرنے والے ہسپتال کے باہر طالبان جنگجوؤں نے ان طلبا کے اہل خانہ کو مارا پیٹا بھی جو معلومات کی تلاش میں جمع ہوئے تھے۔

خواتین اس وقت رونے لگیں جب انہوں نے طبی ماہرین کی طرف سے قریبی دیواروں پر لگائی گئی متاثرین کی تصاویر کو اپنے بچوں کی تلاش میں غور سے دیکھا۔

افغانستان کے سخت گیر طالبان حکمرانوں کی جانب سے تمام طالبات کو سکول جانے کی اجازت دینے کے وعدے سے پیچھے ہٹ جانے کے بعد متاثرہ سکول میں صرف چھٹی جماعت تک کے طلبہ پڑھتے ہیں۔ فوری طور پر کسی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ماضی میں اس علاقے کو افغانستان میں داعش سے وابستہ تنظیم نے نشانہ بنایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا