’صراط مستقیم:‘ مذہبی موضوعات پر بنا اصلاحی ڈراما

اس ڈرامے کے آغاز میں ایک آیت قرآنی بمع ترجمہ لکھی دکھائی جاتی ہے اور کہانی اس کے مفہوم کو ہمارے انسانی تقاضوں کے مطابق بیان کرتی ہے۔

اس سیریز کے تحت ہر بار کسی ایک اصلاحی موضوع پر ڈراما پیش کیا جاتا ہے (اے آر وائی ڈیجیٹل)

ہم نے پچھلے ہفتے لکھا تھا کہ رمضان کے حوالے سے بھی ڈرامے ہونے چاہییں، تو ہماری ایک دوست سائرہ غلام نبی نے ہمارے ڈرامے کے علم میں اضافہ کیا اور بتایا کہ ’اے آروائی سے ایسے ہی ڈرامے ایسے آ رہے ہیں، ضرور دیکھنا۔‘

’صراط مستقیم‘ اور ’مکافات۔‘

اب یہ تو نیکی اور پوچھ پوچھ والی بات تھی۔ ہم ہمیشہ سے سیدھی راہ چلنے والے ہیں اس لیے ’صراط مستقیم‘ کا انتخاب کیا۔

یہ ڈراما سیریز ہے اور ہر کہانی اپنے عنوان کے تحت لکھی اور پیش کی گئی ہے۔ ڈرامے کے آغاز میں ایک آیت قرآنی بمع ترجمہ لکھی دکھائی جاتی ہے اور کہانی اس کے مفہوم کو ہمارے انسانی تقاضوں کے مطابق بیان کرتی ہے۔

یہ کافی محنت و محبت طلب کام ہے۔ سب ٹائٹلز صراط مستقیم کے اندر کہانیوں کے ضمنی عنوان اپنی پہچان آپ ہیں۔

برکت، بھوک، ناشکری، تقدیر، بدگمانی، حسرت، آپا بیگم، دھوکہ، جھوٹی، ماں جیسی ساس، تکبر، حلال حرام ، ماں کی دعا۔ ان عنوانات سے ہم ڈراموں کے موضو عات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

ڈراما ’تقدیر‘ میں انسان اپنی تدبیر سے، چالاکی، مکاری فریب اور حسد سے اپنے نصیب بدلنے کی کوشش کرتا تو ہے مگر تقدیر کے سامنے ہار جاتا ہے۔ شاید تدبیر اور نیت کا اخلاص نہ ہونا تقدیر کا اصل مفہوم ہو۔

یونہی ڈراما ’ناشکری‘ میں انسان مادہ پرستی میں آگے بڑھتا ہی جاتا دکھایا گیا ہے لیکن کبھی شاکر نہیں ہوتا۔

آخرمیں اس کے پاس مادیت کی بھرمار ہے مگر حقیقی خوشی نہیں ہے، بس ایک بے چینی، بےسکونی اضطراب اس کے اثاثے ہیں اور وہ اس کا سبب سمجھ بھی نہیں پا رہا

 اب وہ اپنی خوشیاں مادیت سے تلاش کرنے میں بھی ناکام ہے۔

یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہوتی ہے کہ انسان مادے کی ہوس میں اپنا حال کا سکون اور خوشیاں جی نہیں پاتا، جب کہ مذہب نے اسے ہر حال میں شاکر رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا کوئی تو مقصد ہو گا۔

 اس کا مقصد خوشی ہے۔ جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ سکون وہ انمول جنس ہے جو دولت سے نہیں خریدی جا سکتی۔

 ڈراما ’برکت‘ میں بھی وہی مادہ پرستی، وہی انسان کا اللہ کی بجائے اپنی تدبیر سے اپنے لیے راہیں بنانے کی مادی و دنیاوی کوشش ہیں۔

 برکت کیا ہے، اس طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ ان دیکھا رزق ہے جو دینے میں، جو توکل اور نیک نیت کے ستون پہ سایہ کھڑا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیسے اک کہاوت ہے ’جو چاہتے ہو وہ بانٹنا شروع کر دو، دینا شروع کر دو، تمہیں مل جائے گا۔‘ لیکن یہ بات انسانی حساب کتاب میں تو سمجھ نہیں آتی۔

اب یہ ربی حساب کتاب انسان کو سمجھ نہیں آ رہا ہوتا لیکن اسے آخر کار رب کے اس فلسفے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔

کہتے ہیں محبت چاہتے ہو تو محبت دینا شروع کر دو، دولت چاہتے ہو تو غربت میں سخی ہو جاؤ، عزت چاہتے ہو تو دوسروں کو عزت دینا شروع کر دو۔

بس یہ سب ڈرامے ایسی ہی کہانیاں ہیں جن میں انسان کی اپنے ساتھ جنگ کا اختتام رب کے فلسفے کے سامنے سجدہ ریز ہونے پہ ہوتا ہے۔ یہی کامیابی کی پہلی کنجی ہے۔

ہر ڈرامے کے اختتامی مکالمے خلاصہ، حاصل کہانی اور آیت کی تفسیر ہے۔ ڈراما ’تکبر‘ بھی ایسے ہی ایک متکبر لڑکےکی کہانی ہے۔ حاصل وہی لاحاصلی ہے۔

ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں ’غرور کا سر نیچا‘ لیکن سمجھ یہ ہمیشہ ذاتی تجربے اورمشاہدے سے ہی آتا ہے کہ یہ تکبر کس فرعون کا نام ہے۔

ایسے ڈرامے سیریل میں بھی بننے چاہییں۔ ان کا تاثر گہرا ہوتا ہے۔

سب ڈراموں کا خلاصہ کیا جائے تو یہی ہو گا کہ تمام برائیاں آپس میں رشتے دار ہیں۔ ایک خون سے ہیں، منفی ہیں اور تمام اچھائیوں کی بنیاد بھی ایک ہی ہے جس کی بےشمار شاخوں پر رنگ برنگ و لذیذ پھل لگتے ہیں اور پیڑوں کا سایہ الگ سکون دیتا ہے۔

انسان جیسا ہوتا ہے اس میں سے ویسی ہی لہروں کا اخراج ہو تا ہے، اگر اس کی سوچ مثبت ہو گی تو اس کی صحبت بھی مثبت ہو گی اور اسے خیر بٹتی رہے گی۔ اس کے وجود میں سکون کا احساس ہو گا جو اس کی نیت و عمل و ریاضت کا غماز ہے، اس پہ کرم بھی ہو سکتا ہے۔

اس کے برعکس منفی اثرات اپنے تمام منفی ہتھیاروں کےساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔

یہ سب ڈرامے ایسی ہی ایک عمدہ کاوش ہیں۔ ان سب میں خیر تو ہے۔ البتہ رمضان کا کیف ہر ڈرامے کا حصہ نہیں ہے۔ مگر خیر کا عنصر ہر کہانی میں بادرجہ اتم موجود ہے۔

 اشفاق احمد صاحب یاد آ گئے جو دعا دیا کرتے تھے: ’اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔‘

یہ ایک جملہ سمجھتے ساری عمر گزر جاتی ہے۔ اشفاق احمد صاحب کی دعا کے ساتھ، الوداع رمضان۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ