وزیرستان حملے: فوجی اہلکاروں سمیت پانچ افراد چل بسے

جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ تین ہفتوں سے سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا جن میں ایک میجر سمیت ایک درجن سے زیادہ اہلکار جان سے جا چکے ہیں جبکہ جوابی کارروائی میں 10 سے زیادہ شدت پسند بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔

27 جنوری 2019 کی اس تصویر میں پاکستانی فوج کا ایک اہلکار غلام خان ٹرمینل پر تعینات ہے(اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے حملے میں دو فوجی اہلکار جان سے گئے جبکہ شمالی وزیرستان میں نامعلوم نقاب پوشوں کی فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہو گئے۔ دوسری جانب پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے غلام خان گیٹ کو بھی کھول دیا گیا ہے۔

وانا میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار کے مطابق ’جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے 70 کلومیٹر دور شمال کی جانب تحصیل سراروغہ کے ایک پہاڑی علاقے میں آرمی کے ٹھکانے پر مسلح حملہ آوروں نے اس وقت حملہ کیا جب وہ ایک مورچے میں موجود تھے۔‘

اہلکار کے مطابق جان سے جانے والوں میں لانس نائیک عمر علی خان اور سپاہی سراج الدین شامل ہیں۔

سراروغہ میں تعینات ایک پولیس آفسر نے بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے قریبی علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیا جس میں فوج کے ساتھ پولیس بھی حصہ لے رہی ہے مگر تاحال کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سرچ آپریشن تب تک جاری رہے گا جب تک علاقے کو کلیئر نہ کر لیا جائے۔‘

قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جنوبی وزیرستان میں حالات ایک بار پھر خراب ہوتے نظر آرہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فوج نے محسود قبائل کو خبردار کیا ہے کہ افغان سرحد کے قریب تحصیل شوال کے تین گاؤں راغزانہ، شوال اور لوڑہ کے علاقوں میں تحریک طالبان کے جنگجو نہ صرف پہاڑی سلسلوں میں چھپے ہوئے ہیں بلکہ آبادی والے علاقوں میں بھی گھس گئے ہیں۔‘

صالح شاہ کے مطابق ’ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ افغان سرحد کے قریب فوج ایک بار پھر آپریشن کرنے جا رہی ہے جس کی وجہ سے 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ البتہ سکیورٹی فورسز نے یہ بتایا ہے کہ آپریشن سے پہلے علاقے کو خالی کردیا جائے تاکہ آپریشن کے دوران کسی بےگناہ کو نقصان نہ پہنچے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عید کے تیسرے دن محسود قبائل کا گرینڈ جرگہ طلب کیا گیا ہے جس میں حکومت کے ساتھ من و امان کے حوالے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔‘

ایسے حالات میں علاقہ مکینوں کے حوالے سے جو سوالات سامنے آ رہے ہیں ان میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے متوقع آپریشن سے متاثر ہونے والے لوگوں کے لیے کھانے پینے یا پناہ کا کوئی انتظام کیا ہے؟

جس پر مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’اس علاقے کے لوگ آپریشن راہ نجات میں بھی متاثرین کیمپوں میں نہیں بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے علاقوں میں اپنے عزیزوں و رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے تھے۔ اس علاقے کے اکثر لوگوں کو معاوضے اور سروے کے پیسے مل رہے ہیں۔‘

مبصرین کے خیال میں جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو موجود ہیں جن کے خلاف جنگ کے علاوہ مذاکرات کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ خوست میں شمالی وزیرستان کے متاثرین پر حملہ اور افغانستان سے پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے بعد افغان طالبان کے ساتھ بھی تعلقات اچھے نہیں رہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ 20 سالوں سے آپریشنز سے تنگ آچکے ہیں اور ان میں مزید ہمت نہیں کہ وہ علاقے سے بے داخل ہو جائیں۔

ایک مقامی شخص عالم خان کے مطابق پہلے آپریشن میں ان کے تین بیٹے تعلیم سے محروم ہوگئے تھے اور وہ گھر کے اخرجات پورے کرنے کے لیے دیہاڑی پر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ اب اگر دوبارہ متاثر ہوئے توان کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کیا کریں گے۔

جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ تین ہفتوں سے سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا جن میں ایک میجر سمیت ایک درجن سے زیادہ اہلکار جان سے جا چکے ہیں جب کہ جوابی کارروائی میں 10 سے زیادہ حملہ آور بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں فائرنگ سے تین ہلاکتیں:

ضلع شمالی وزیرستان میں ایک ہی دن میں نامعلوم نقاب پوشوں نے فائرنگ کرکے تین افراد کو ہلاک کر دیا۔

میر علی کے ایک پولیس اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں منگل کو ایک ہی دن میں ٹارگٹ کلنگ کے دو واقعات پیش آئے جن میں تین افراد ہلاک ہوگئے۔‘

 ان کا کہنا تھا کہ ’پہلا واقعہ دن تین بجے گاؤں حسوخیل میں پیش آیا جس میں 21 سالہ جمیل احمد کو نامعلوم نقاب پوشوں نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا اور فرار ہونے ہو گئے۔ جب کہ دوسرا واقعہ افطاری سے کچھ دیر پہلے ہوا جس میں دو نوجوانوں کو ٹارکٹ کیا گیا، جن کا تعلق گاؤں خوشحالی سے بتایا جاتا ہے۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق دونوں واقعات میں پولیس نے لاشوں کو ہسپتال تک پہنچایا اور مختلف علاقوں کی ناکہ بندی کی مگر تاحال کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’تحقیقات کے بعد معلوم ہوگا کہ ان واقعات میں کون ملوث ہیں۔ تاحال کسی نے بھی ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرانشاہ میں مقامی صحافی صفدر داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں میں سات افراد ٹارکٹ کلنگ میں مارے گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’یہ واقعات صرف تین کلومیٹر کے اندر پیش آتے ہیں۔ جہاں پولیس کے علاوہ ایف سی اور فوج کی چیک پوسٹس موجود ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس سے پہلے 19 گریڈ کے سی ایس ایس افسر اور یوتھ آف شمالی وزیرستان کے صدر نور اسلام دونوں اسی تین کلومیٹر کے اندر علاقے میں مارے گئے تھے، مگر ابھی تک کسی کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی کسی واقعہ کی تحقیقات مکمل ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ انتہائی پریشان ہیں۔‘

 صفدر کے مطابق ’جن کے پاس کچھ وسائل ہیں وہ اپنے بال بچوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں۔‘

غلام خان گیٹ کھول دیا گیا:

علاوہ ازیں گذشتہ روز سے پاک افغان سرحد پر واقع غلام خان گیٹ کو بھی ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر شاہد علی نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’زیرو پوائنٹ پر بارڈر کے مسائل پر ایک اہم جرگہ ہوا، جس میں عسکری و ضلعی حکام اور دونوں اطراف کے تجاراتی وفود نے شرکت کی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس موقع پر پاکستانی حکام نے سرحد کے اس پار سے دہشت گرد حملوں پر تشویش کا اظہار کیا اور افغان وفود کو سیکورٹی خدشات سے اگاہ کیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’جرگے میں فیصلہ کیا گیا کہ غلام خان گیٹ کے مسئلے کو سلسلہ وار دیکھا جائے گا۔ جس پر چند روز بعد سکیورٹی صورتحال اور دوسرے مسائل کے حوالے سے دونوں اطراف کے تاجروں اور حکام پر مشتمل ایک جرگہ منقعد ہوگا۔ جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔‘

واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل افغان سرحد سےغلام خان گیٹ کے قریب پاکستانی فوج پر حملہ ہوا تھا جس میں تین فوج جان سے گئے تھے جس کے بعد اس گیٹ کو آمد ر رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ جبکہ اس واقعے سے قبل بھی شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں نے فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا تھا جس میں سات اہلکار چل بسے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان