شمالی وزیرستان: غلام خان ٹرمینل تاحکم ثانی بند

مقامی ڈپٹی کمشنر کے مطابق پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور پیدل آمد و رفت سمیت ہر قسم کی سرگرمیوں کے لیے یہ گیٹ بند کردیا ہے، دوبارہ گیٹ کھلنے کی کسی مدت سے متعلق انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

پاکستانی فوج کی جانب سے 27 جنوری 2019 کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان کے قصبے غلام خان میں سرحدی ٹرمینل کے بارے میں میڈیا بریفنگ(تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں افغانستان کے علاقے سے پاکستانی فوج کی چیک پوسٹ پر حملے کے بعد سرحد پر غلام خان ٹرمینل کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر شاہد علی کے مطابق پاک-افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور پیدل آمد و رفت سمیت ہر قسم کی سرگرمیوں کے لیے تاحکم ثانی یہ سرحدی گزرگاہ بند رہے گی۔

یاد رہے کہ آئی ایس پی آر نے ہفتے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان سے عسکریت پسندوں نے رات کو شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوجی چوکی پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں فوج کے تین اہلکار جان سے گئے۔

بیان میں میں کہا گیا کہ پاکستانی فوجی چوکی پر فائرنگ کے جواب میں کی جانے والی فائرنگ میں متعدد عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

غلام خان ٹرمینل پر موجود تاجروں نے ہفتے کی شب بتایا کہ گزرگاہ کی بندش کی وجہ سے گیٹ کے دونوں جانب سبزیوں، پھلوں اور دیگر تجارتی سامان سے بھری سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گیٹ پر سول انتظامیہ کا کوئی اہلکار نظر نہیں آ رہا، اور اس کے حدود میں صرف فوج کے اہلکار مُسلح کھڑے ہیں۔ تاجروں نے غلام خان گیٹ کھولنے کا مطالبہ کیا۔

قبائلی سردار ملک آمین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ سرحدی کشیدگی کے باعث پاکستان افغانستان سرحد کو بند کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرحد کی بندش کی وجہ سے افغانستان میں موجود آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کی واپسی بھی روک دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’شمالی وزیرستان میں کوئی کارخانہ نہیں ہے کہ لوگ وہاں جا کر مزدوری کرسکیں اور یہی سرحدی گزرگاہ تجارت و روزگار کا ذریعہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا کہ گیٹ کی دونوں جانب کھڑی گاڑیوں کو اجازت دی جائے تاکہ غریب کاروباری لوگ نقصان سے بچ سکیں کیونکہ پھنسی ہوئی گاڑیوں میں زیادہ تر میوہ جات اور سبزیوں کی گاڑیاں ہیں۔

دوسری جانب علاقے میں دھرنے بھی جاری و ساری ہیں۔ ایک دھرنا وانا میں تھری جی اور فور جی سروس کی بندش کے خلاف دو دن سے جاری ہے۔

دھرنے سے خطاب میں پیپلز پارٹی کے رہنما عمران مخلص کا کہنا تھا کہ نیٹ کو بند کرنا سمجھ سے بالاتر ہے اور حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے سینکڑوں طلبہ متاثر ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے مختلف کالجوں میں سکالرشپ آئی تھیں، انٹرویو کے لیے طلبہ میسج کے انتظار میں تھے اور گذشتہ روز معلوم ہوا کہ مسیج پہنچے مگر نیٹ کی بندش کی وجہ سے کسی کو پتہ بھی نہ چلا اور انٹرویو کا دن گزر گیا۔

دوسرا دھرنا خوست میں بمباری کے متاثرین کے لیے انصاف مانگنے کے لیے بنوں میں کئی دن سے جاری ہے جس میں نہ صرف متاثرین کے عزیز و رشتہ دار شریک ہیں بلکہ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے پی ٹی ایم کے سینکڑوں نوجوان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں آمن و امان کے حوالے سے محسود قبائل کا ایک گرینڈ جرگہ ہوا جس میں ممبر صوبائی اسمبلی عصام الدین کے علاوہ دوسرے سرکردہ قبائلی عمائدین اور علما نے شرکت کی مگر جرگے میں کوئی خاص فیصلہ نہیں ہوا اور عید تک اسے ملتوی کردیا گیا۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو پہاڑی علاقوں کے علاوہ آبادی والے علاقوں میں بھی موجود ہیں جس کے خلاف سکیورٹی فورسز کی غیر اعلانیہ کارروائی تو جاری ہے مگر بعض علاقوں میں کارروائی کرنے سے عام شہریوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ملک آمین نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ جن آبادی والے علاقوں میں تحریک طالبان کی موجودگی کی خبریں ہیں تو عام شہریوں کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ کارروائی سے پہلے علاقے سے چلے جائیں جس پر جرگوں کا سلسلہ جاری ہے۔                

 واضح رہے کہ گذشتہ دو ہفتوں سے پاکستان افغانستان سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اچانکہ اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک درجن کے قریب سکیورٹی اہلکار مختلف حملوں میں جان سے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا