کیا شمالی وزیرستان کے تباہ شدہ سکول دوبارہ تعمیر ہو چکے؟

ضلع بننے کے بعد علاقے کی صورتحال میں بہتری آئی ہے لیکن اب بھی دہشت گردی سے متاثرہ کچھ سکول بحالی کے منتظر ہیں۔

1966 میں تعمیر ہونے والا حسوخیل گاؤں کا یہ ہائی سکول دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے (اظہار اللہ/ انڈپینڈنٹ اردو)

بچے ایک کمرے پر مشتمل خستہ حال سکول کے برآمدے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے جبکہ سکول کے گرد چار دیواری تھی اور نہ بجلی اور پانی کا انتظام۔

عمارت کی دیواروں میں دراڑیں اتنی کہ بس گرنے کے قریب تھی۔ کمرے میں بیٹھنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔

فرش پر کچھ ٹوٹی کرسیاں نظر آ رہی تھیں، کمرے کی کھڑکیاں ایسی تھیں جیسے برسوں سے ان کو کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو۔

کمرے کے اندر سکول کے رجسٹر اور دیگر دستاویزات کے لیے بنائی گئی الماری کو ایک پلاسٹک کی تھیلی سے بند کیا گیا تھا۔

سکول کی ایک دیوار پر مارٹر گولا لگا تھا جس سے وہ آدھی گر گئی تھی اور اس گری ہوئی دیوار میں موجود سراخ سے برآمدے میں زمین پر بیٹھے بچے نظر آرہے تھے۔

یہ شمالی وزیرستان کے گاؤں حیدر خیل کا سرکاری پرائمری سکول ایاز کوٹ ہے، جو تقریباً 10ہزار آبادی کے لیے بنایا گیا تھا۔

یہ دہشت گردی کی لہر کے دوران متاثر ہوا تھا لیکن ابھی تک اس کو دوبارہ نہیں بنایا جا سکا۔

سکول کے سامنے موجود گھر میں رہنے والے ایک بزرگ محمد امیر نے بتایا کہ آپریشن ختم ہونے کے بعد سے یہ سکول اسی حالت میں ہے لیکن ابھی تک اس کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

’سکول کی عمارت کی خستہ حالی کے باوجود والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں تاکہ تعلیم حاصل کر کے ان کا مستقبل سنور سکے لیکن سکول کی عمارت ایسی کہ یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔‘

محمد امیر کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ اس علاقے میں قریب کوئی دوسرا پرائمری سکول نہیں اور صرف یہی ایک آسرا ہے جہاں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

’ہم کسی بھی طریقے سے اس سکول کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے بھی ہماری طرح ناخواندہ بڑے ہوں اور ہماری طرح مزدوریاں کریں۔‘

سکول سے تقریباً دو تین کلو میٹر دور ایک اور پرائمری سکول بھی ہے جو پاکستان فوج کے تعاون سے ایک غیر سرکاری ادرے نے بنایا ہے۔

اس سکول کی عمارت تو موجود نہیں البتہ پری فیبری کیٹڈ سٹرکچر سے بنایا گیا ہے جس میں بجلی کے لیے سولر سسٹم نصب تھا جب کہ پانی اور واش روم کا انتطام بھی موجود تھا۔

وہاں کے ایک رہائشی نے بتایا کہ یہ سکول فعال ہے اور قریب کے علاقوں سے بچے یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ یہاں تمام تر انتظامات موجود ہیں لیکن ایک مسئلہ ہے کہ یہ وزیرستان کے دریائے ٹوچی کے قریب بنایا گیا ہے اور جب دریا میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے توپانی اس میں داخل ہو جاتا ہے۔

مقامی صحافی مزمل نے بتایا کہ علاقے میں ترقیاتی کام ہوئے ہیں، سکول سمیت ہسپتال بھی بنائے گئے ہیں لیکن ابھی بھی بہت کام باقی ہے۔

مزمل کا کہنا تھا کہ ابھی تک 50 فیصد تک کام مکمل ہوا ہے اور باقی 50 فیصد جو انفرا سٹرکچر تباہ ہوا تھا، وہ ابھی تک دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا لیکن جو لوگ کہتے ہے کہ وزیرستان میں کچھ بھی ترقیاتی کام شروع نہیں ہوا، وہ حقیقت کے برعکس ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسی گاؤں کے قریب ایک دوسرے گاؤں حسوخیل کا دورہ بھی کیا جہاں پر تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ایک ہائی سکول دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یہ علاقے کا سب سے بڑا ہائی سکول ہے جو 1966میں بنایا گیا تھا۔

مزمل نے بتایا کہ اس سکول کو اب پہلے سے بہت بہتر بنایا گیا ہے اور یہاں پر300 سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

’اس سکول کے فارغ التحصیل لوگ اب بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ اس سکول کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے۔‘

حسوخیل جاتے ہوئے راستے میں ایک عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ جب مزمل سے اس عمارت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ ہسپتال تقریباً چھ مہینے پہلے تعمیر کیا گیا ہےجس میں تمام تر سہولیات موجود ہیں۔

آٹھ نومبر کو جاری کی جانے والی خیبر پختونخوا حکومت کی پریس ریلیز کے مطابق اب تک قبائلی اضلاع میں 60 ارب روپے کے 200 سے زائد منصوبوں پر کام جاری ہے۔

شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان سے جب پوچھا گیا کہ ان 200 زیر تعمیر منصوبوں میں وزیرستان میں کون سے مںصوبے جاری ہیں اور کہاں پر ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں مجموعی طور پر 974 سکول ہیں جن میں سے 202 سکول تباہ کاری کے بعد دوبارہ تعمیر کیے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ باقی مانندہ 82 سکول مختلف فنڈز کے تحت کور ہیں اور ان کی منظوری آگئی ہے جس میں حیدرخیل کا پرائمری سکول بھی شامل ہے۔

’ان تمام سکولوں پر بہت جلد کام شروع ہوجائے گا۔ اگر کہا جائے تو10 فیصد تک سکول دوبارہ نہیں بنے باقی تمام بن گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہد علی خان نے مزید بتایا کہ شمالی وزیرستان میں انڈسٹریل سٹیٹ بنانے کے منصوبہ بھی زیر غورہے، جہاں 18ہزار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے اور اس سے تجارت سے وابستہ افراد کو بھی فائدہ ہوگا۔‘

انڈپینڈںٹ اردو کی شمالی وزستان دورے کے دوران ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو آپریشن سے متاثر ہوئے تھے اور شدت پسندی کے وجہ سے نقل مکانی بھی کر چکے تھے۔

ایک مقامی شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’ایسا بھی نہیں کہ شمالی وزستان مکمل طور پر ویران ہے اور یہاں کچھ نہیں ہو رہا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کچھ نہ کچھ منصوبوں پر کام جاری ہے لیکن ہزاروں منصوبے اب بھی ایسے ہیں جن پر کام کرنا باقی ہے۔

’حکومت کی طرف سے ابھی ان پر توجہ نہیں دی گئی لیکن یہ آنے والے دنوں میں پتا لگے گا کہ وزیرستان کو کتنا ترقی یافتہ بنائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان