شمالی وزیرستان: آپریشن ضرب عضب کے بعد تعمیر نو، تجارت بحال

اپریل 2018 میں غلام خان بارڈر ٹرمینل کی تعمیر کے بعد شمالی وزیرستان میں افغانستان کے ساتھ سرحد کو باضابطہ طور پر کھولا گیا۔

غلام خان سرحد افغانستان سے تجارت اور آمدورفت کے لیے طور خم اور چمن کے بعد تیسرا بڑا کراسنگ پوائنٹ ہے، جسے اب تجارت کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

یہاں روزانہ کی بنیاد پر سامان سے لدے ٹرک پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور پاکستان سے افغانستان بھی جاتے ہیں۔ گذشتہ برسوں میں سرحدی علاقوں میں آپریشنز کے باعث سرحد کو متعدد مرتبہ بند بھی کیا گیا۔

افغانستان کی طورخم سے 80 فیصد، جبکہ شمالی وزیرستان میں واقع غلام خان بارڈر ٹرمینل اور چمن سے بقیہ 20 فیصد تجارت ہوتی ہے۔ شمالی وزیرستان میں 2014 میں جب دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو غلام خان سرحد کو بند کر دیا گیا تھا۔

اپریل 2018 میں بارڈر ٹرمینل کی تعمیر کے بعد سرحد کو باضابطہ طور پر کھولا گیا۔ غلام خان بارڈر ٹرمینل 13 ارب کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے اور دوسری جانب افغانستان کا ضلع خوست ہے۔

2611  کلومیٹر طویل پاکستان افغان بارڈر، جو پاکستان کے شمال میں واخان پٹی سے شروع ہوکر بلوچستان میں ختم ہوتا ہے، پر 16 مقامات ایسے ہیں جہاں اس سے قبل روایتی طور پرمقامی لوگوں کی آمدورفت اور سرحدی تجارت ہوتی رہی ہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ متصل افغان سرحد کی طوالت 1229 کلومیٹر ہے۔ جبکہ شمالی وزیرستان کےعلاقے سے افغانستان کی سرحد 183 کلومیٹر طویل ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق باڑ لگنے کے بعد افغانستان کے ساتھ تین بارڈر پوائنٹس تجارت کے لیے فعال ہیں۔ ان میں طورخم، چمن اور نیا تعمیر ہونے والا غلام خان بارڈر پوائنٹ شامل ہے، جبکہ کُل پانچ کراسنگ پوائنٹس ہیں۔

غلام خان بارڈر ٹرمینل سے کتنی تجارت ہوتی ہے؟

واضح رہے کہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے، یعنی اس کا کوئی سمندری ساحل نہیں ہے جہاں سے وہ تجارت کر سکے، اس لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان افغانستان کو دنیا بھر سے تجارتی سامان کی درآمد کے لیے ٹرانزٹ سہولت فراہم کر رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جاننے کی کوشش کی کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنے ٹرک غلام خان بارڈر کراس کرتے ہیں، جیسے کہ پاکستان سے کتنے جاتے ہیں اور افغانستان سے کتنے آتے ہیں۔

ان سوالات پر غلام خان بارڈر ٹرمینل پر موجود مقامی تاجروں نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر تجارتی سامان سے لدے چار سو سے آٹھ سو تک ٹرک سرحد پار آتے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق، تجارتی سامان میں کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ تعمیراتی سامان بھی شامل ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019 سے فروری  2022 کے درمیان 62 ہزار 836 ٹرک تجارت کے غرض سے افغانستان سے پاکستان آئے، جبکہ 62 ہزار 92 ٹرک پاکستان سے افغانستان گئے۔

مقامی تاجروں کے مطابق یہ گزرگاہ تو شروع سے ہی رہی ہے لیکن باڑ لگنے کے بعد اس کراسنگ پوائنٹ پر باقاعدہ بارڈر ٹرمینل بنایا گیا جس کا فیصلہ ضرب عضب آپریشن کے دوران کیا گیا۔

اس دوران ٹرمینل کی تعمیر کے وقت بھی یہ کراسنگ پوائنٹ بند تھا۔ اس کے لیے سرحدی حالات میں تناؤ اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بھی تجارت کے لیے یہ راستہ بند رکھنا پڑا۔

مقامی تاجروں نے مزید بتایا کہ جب غلام خان بارڈر ٹرمینل بند تھا تو شمالی وزیرستان کے تاجر اپنی اشیا کی ترسیل کے لیے طورخم سرحد استعمال کرتے تھے۔

لیکن باڑ لگنے اور بارڈر ٹرمینل فعال ہونے کے بعد اُن کے لیے تجارت آسان ہو گئی ہے۔

مقامی تاجروں نے یہ بھی بتایا کہ ضرب عضب اور علاقے میں آپریشن کے دوران وہ لوگ اہلِ خانہ سمیت وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے تھے۔

علاقے میں آپریشن کی کامیابی کے بعد سب کچھ جنگ زدہ علاقے جیسا منظر پیش کر رہا تھا جس کے بعد متعلقہ حکومتی اداروں اور آرمی نے علاقے میں تعمیر نو کی، مکانات اور بازار بحال کیے۔

انہوں نے کہا جب انہیں یقین ہو گیا کہ علاقے میں امن ہے تو وہ واپس لوٹ آئے۔

میران شاہ تاجر یونین کے صدر حیات محمد خان نے کہا: ’غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں کیونکہ شمالی وزیرستان میں قدرتی معدنیات خصوصاً تانبے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری کریں تاکہ علاقہ مزید ترقی کر سکے اور مقامی افراد کو وافر روزگار مل سکے۔‘

شمالی وزیرستان کے رہائشی کیا چاہتے ہیں؟

ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان شاہد علی خان کہتے ہیں: ’آج سے پانچ چھ برس قبل جو حالات تھے اب وہ حالات نہیں رہے۔ ہر گزرتا دن امن میں اضافہ کر رہا ہے۔ ‘

غیر ملکی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے شمالی وزیرستان کے دورے کے دوران ڈپٹی کمشنر نے مقامی مشران سے بیٹھک بھی کی اور اُن کے مسائل سُنے۔ اس دوران مقامی زبان میں مختلف لوگوں نے اپنے مسائل بتائے۔

مجموعی طور پر زیادہ تر افراد کے یہی تخفظات تھے کہ علاقے میں بنیادی سہولتوں کو مزید بہتر بنایا جائے اور بجلی گیس کے مسئلے کو حل کیا جائے۔

اس کے علاوہ ایک بڑا مطالبہ جو مقامی افراد کی طرف سے کیا گیا وہ مزید سکول کھولنے کی استدعا تھی۔

مقامی مشر شربت خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے توسط سے یہ بات اعلیٰ حکام تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہماری نسل کی جدید تعلیم کے لیے کچھ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں ان کے بچے ’اچھے سکولوں سے پڑھ لکھ کر یہ کچھ بن جائیں۔‘

مقامی مشران کے مطالبات پر جب ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’گذشتہ تین برسوں میں شمالی وزیرستان میں 18 ارب روپے مختلف تعمیراتی منصوبوں میں خرچ ہوئے ہیں۔ مرکزی شاہراہیں بنا دی گئی ہیں، بازار بھی دوبارہ تعمیر ہو چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ مقامی افراد کو معاوضوں کی ادائیگی کا عمل میرعلی میں مکمل ہے لیکن میران شاہ کے علاقے میں ابھی مکمل نہیں ہوا، وہ جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’فاٹا کو ضم کرنے کا عمل بھی مکمل ہے، سارے مقامی محکمے ضم ہو چکے ہیں اور پولیس کو تربیت دے دی گئی ہے۔ اب یہاں معمول کی پولیس اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔‘

شمالی وزیرستان میں تعلیمی منصوبے

تعلیم کے حوالے سے مقامی مشران کے تخفظات پر ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں کُل 974 سکول ہیں جو کہ وہ سمجھتے ہیں کہ علاقے کی ضرورت کے لیے کافی ہے لیکن جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے وہاں پر کام کر رہے ہیں اس کی حالیہ مثال میر علی کے علاقے میں لڑکیوں کے کالج کی منظوری ہو گئی ہے۔

اس کے علاوہ تحصیل شوا میں بھی لڑکیوں کے کالج کی تعمیر کی منظوری ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی یونیورسٹی کے قیام کی فزیبلیٹی سٹڈی بھی شروع ہوگئی ہے اور جلد ہی اس حوالے سے بھی اچھی خبر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ امید ہے اس سے مقامی رہائشیوں کے گِلے شکوے ختم ہو جائیں گے۔

گذشتہ چند برسوں کے سرکاری اعداد و شمار  کے مطابق علاقے ،ہإ مردوں کی تعلیم کی شرح 30.92 فیصد ہے جبکہ خواتین کی تعلیم کی شرح چھ فیصد ہے۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ خواتین کی شرح کم نہیں ہے؟ تو انہوں نے کہا: ’یہ بھی تو دیکھیں اس علاقے میں لڑکیوں کے سکول تھے ہی نہیں، یہ شرح گذشتہ چند سالوں میں زیرو سے چھ فیصد تک پہنچی ہے جو کہ آنے والے سالوں میں مزید بڑھے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے لیے ہوسٹل بھی بنایا جا رہا ہے اس وقت 56 خواتین ہیں جو ٹیکنیکل وکیشنل سینٹر میں تربیت حاصل کر رہی ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انتظامی افسر نے بتایا: ’یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد امن قائم ہونے کی وجہ سے شوال، رزمک اور دتہ خیل سیاحت کے لیے مشہور ہو گئے ہیں۔ گذشتہ برس عید کے موقعے پر ہزاروں کی تعداد میں سیاحوں ان علاقوں کا بھی رُخ کیا جو کہ خوش آئند ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا