افغان ڈونلڈ ٹرمپ اب کہاں ہیں؟

سید اسداللہ پویا کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے لیے حالات اور بھی خراب تھے کیوں کہ ان کے بیٹے کا نام غیر اسلامی تھا جس کی وجہ سے ان کے لیے خطرہ بڑھ گیا تھا۔

 15 مارچ 2018 کو لی گئی اس تصویر میں ڈونلڈ ٹرمپ لیپ ٹاپ کے ساتھ کھیل رہ ےہیں (فائل فوٹو/ اے پی)

ستمبر 2016 میں نوزائیدہ بیٹے کا نام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر رکھنے والے افغان شہری نے کہا ہے کہ ان کا خاندان افغانستان سے فرار ہوتے ہوئے موت سے بال بال بچا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ انسانی سمگلروں کی مدد سے بیرون ملک پناہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔

سید اسد اللہ پویا ان ہزارروں افغان شہریوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اتحادی افواج اور دارالحکومت کابل میں غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی کتابیں پڑھنے کے بعد ان سے بہت متاثر سید اسد اللہ پویا نےعرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت اور غیر ملکی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اب بھی بڑی تعداد میں افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔

پویا کے بقول ’تلاش کے لیے آپریشن کے بعد اپنا گھر چھوڑنے کے بعد طالبان نے ہمیں تقریباً پکڑ ہی لیا تھا۔‘

وہ رواں ہفتے کے شروع میں عرب نیوز سے ترکی سے ٹیلی فون پر بات کر رہے تھے۔ وہ ایران میں مختصر قیام کے بعد ترکی پہنچے تھے۔

پویا نے بتایا کہ ان کے خاندان نے پناہ کی تلاش میں نمروز کی سرحد غیر قانونی طور پر پار کی۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اتحادی فوجوں کے ساتھ کام کرنے والے طالبان کی کابل آمد کے بعد کتنے خوفزدہ تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے لیے حالات اور بھی خراب تھے کیونکہ ان کے بیٹے کا نام غیر اسلامی تھا جس کی وجہ سے ان کے لیے خطرہ بڑھ گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پویا کا کہنا تھا کہ ’میں بہت ڈرا ہوا تھا کیوں کہ انہوں نے مجھے دھمکی آمیز خط بھیجا تھا جس میں انہوں نے کہا میں کافر ہوں اور مجھے قتل کیے جانے کی اجازت ہے۔ لیکن اپنی پہلی تلاش کے دوران خوش قسمتی سے وہ مجھے تلاش کرنے میں ناکام رہے۔‘

انہوں نے ایران میں داخل ہونے کے لیے خطرناک راستے کا انتخاب کرنے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں  نے سوچا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو میں یا میرے خاندان کا کوئی رکن خودکشی کر لے گا۔

پویا نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مسلسل سفر میں رہے حتیٰ کہ اپنے بیٹے اور بیوی کے ساتھ ایران داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

تاہم افغانستان چھوڑنے کے باوجود ان کی مصیبتوں میں کمی نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ ’انسانی سمگلروں کے گروہ کے ہمراہ ایران جانے کا فیصلہ میری زندگی کے بدترین تجربات میں سے ایک ثابت ہوا۔ مجھے بے عزتی، بھوک، پیاس کا سامنا کرنا پڑا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس سب کے بعد آخرکار انہوں نے ترکی کے ریفیوجی اتھارتی سے رجسٹریشن کے لیے رابطہ کیا۔

دوسری جانب طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے پویا کا دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل میں بننے والی نئی حکومت بین الاقوامی فوج کے ساتھ کام کرنے والوں پر زور دیا تھا کہ وہ ملک میں ہی رہیں اور اس کی ترقی میں تعمیری کردار ادا کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا