بھارت کے دیہاتی جنہوں نے اپنے پیاروں کی آخری رسومات روک رکھی ہیں

نکسل اور ماؤ نواز باغیوں کے گڑھ ریاست چھتیس گڑھ میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے رشتہ دار انصاف کے انتظار میں اپنے پیاروں کی روایتی آخری روسمات ادا نہیں کر رہے۔

مادوی مارکو جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے بدرو کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے ریاست چھتیس گڑھ کے گام پور گاؤں میں 19 مارچ 2020 کو مار ڈالا تھا (نمیتا سنگھ)

صبح تقریباً چھ بجے کا وقت تھا جب مادوی مارکو نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ وہ گھر کے قریب ڈوکا پور کے جنگلات سے مہوا کے پھول لے کر آئیں۔

یہ خاندان بھارت کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے باستر رینج کے خطے میں آباد ہے۔

اس دور دراز اور تنازعات سے متاثرہ علاقے کی قبائلی برادریوں کے خاندان مارچ میں یہ پھول جمع کرنے جنگلوں میں نکل جاتے ہیں جسے وہ بازار میں 30 سے 40 بھارتی روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کر سکتے ہیں۔

وہ صبح بھی اس خاندان کے لیے کچھ مختلف نہ ہوتی لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان کا چھوٹا بیٹا چنوں مانڈوی تھوڑی دیر بعد ہی ہانپتا ہوا گھر واپس لوٹا۔

اس بدقسمت ماں نے گام پور گاؤں میں اپنے گھر سے دی انڈپینڈنٹ کو روتے ہوئے بتایا: ’چنوں نے ہمیں بتایا کہ فورسز نے اس کے بھائی بدرو کو مار ڈالا۔‘

خاتون نے مزید کہا: ’میں ان کی چچی اور دادی کے ساتھ جنگل کی طرف بھاگی لیکن انہوں (بھارتی فورسز) نے مجھ پر بھی حملہ کیا جب میں نے ان سے اپنے مردہ بیٹے کی لاش حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔‘

بھارت کی کئی شمال مشرقی ریاستوں کی طرح چھتیس گڑھ بھی انتہا پسند کمیونسٹ گروہوں پر مشتمل عسکریت پسند شورش کا گڑھ ہے۔ 

مغربی بنگال کے نکسل باڑی گاؤں میں 1967 میں بائیں بازو کی بغاوت سے ابھرنے والے اور چینی انقلابی رہنما ماؤ زیڈونگ سے متاثر یہ ’ماؤسٹ‘ یا ’نکسلی‘ جنگجو چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بھارتی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ گوریلا گروپ مقامی قبائل کے حقوق کا دفاع کرنے کا دعویٰ کرتا ہے جیسا کہ وہ ریاست کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

باستر رینج میں خدمات انجام دینے والے انسپکٹر جنرل آف پولیس پی سندرراج کا کہنا ہے کہ 19 مارچ 2020 کو 22 سالہ بدرو ماؤنواز باغیوں اور مرکزی اور ریاستی ریزرو فورسز کے درمیان ’فائرنگ کے تبادلے‘ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ 

ان کے بقول: ’اس تصادم میں ایک نکسل مرد کیڈر یعنی بدرو مانڈاوی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔‘

بدرو کا خاندان بھارتی فورسز کے اس دعوے کی سختی سے تردید کرتا ہے۔

چنوں، جن کی عمر اب 12 سال ہے، کہتے ہیں کہ ’بدرو ماؤ نواز یا نکسل نہیں تھا۔ وہ ایک بے قصور قبائلی لڑکا تھا جسے میری آنکھوں کے سامنے جان بوجھ کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔‘

چنوں کا مزید کہنا ہے کہ ’میرا بھائی مجھ سے بالکل آگے چل رہا تھا جب بھارتی اہلکاروں نے اسے گولی مار دی۔ انہوں نے مجھ پر بھی گولی چلائی لیکن میں کسی طرح بچ نکلا۔‘

دو سال گزرنے کے باوجود یہ خاندان اب بھی اس بات کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ ان کے بیٹے کو کیوں مارا گیا اور یہ کہ اس واقعے میں ملوث فوجیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔

احتساب کے لیے خراب ٹریک ریکارڈ والے بھارت کے نظام کے خلاف انہیں جس مشکل جدوجہد کا سامنا ہے، اس کو جانتے ہوئے، اس خاندان نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے دو سال سے بدرو کی لاش کو صحیح سے دفنایا نہیں ہے۔

نوجوان کی باقیات کو نمک اور دیگر جڑی بوٹیوں سے لیپ کر ایک کفن میں لپیٹ کر گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قبرستان میں دو فٹ گہرے گڑھے میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔

اس گڑھے کا اوپری حصہ لکڑی کے تنوں، ترپال کی چادر اور مٹی کی ایک پتلی تہہ سے ڈھکا ہوا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گڑھا کسی دوسری قبر کی طرح دکھائی نہ دے۔ گڑھے پر ایک الٹی چارپائی سے نشان لگا دیا گیا ہے تاکہ اسے اوپر آسانی سے ہٹایا جا سکے اور جب تحقیقات کا وقت آئے تو بدرو کی محفوظ باقیات کو بطور ثبوت استعمال کیا جا سکے۔ اس کے بعد ہی بدرو کی روایتی طور پر آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔

اس خاندان کا یہ اقدام غیر معمولی ہے کیونکہ اس گاؤں میں آباد گونڈ قبیلہ بھارت کی بہت سی برادریوں کی طرح عام طور پر مردوں کو دفن نہیں کرتا ہے۔ اس کے بجائے مرنے والوں کو جلایا جاتا ہے اور چتا پر اہل خانہ مرنے والے کے دیگر تمام سامان سمیت ان کے کپڑوں کو بھی جلا دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدرو کا سامان ان کی والدہ کی نظروں سے دور اب تک جھونپڑی کے ایک کونے میں دفن ہے جن کی آنکھیں اپنے بیٹے کے غم میں ہر وقت نم رہتی ہیں۔

گاؤں والوں نے بدرو کی تمام آخری رسومات مکمل نہیں کیں۔ انہوں نے گاؤں کے باہر ان کے مقبرے کے نام کا پتھر رکھ دیا ہے۔ لیکن یہ باقی تمام مقبروں سے مختلف ہے کیوں کہ اس کی باقیات سڑک کے دوسری طرف الگ تھلگ پڑی ہوئی ہیں۔

بدرو کی والدہ کہتی ہیں: ’اگر ہم لاش کو جلا دیتے ہیں تو اس سے ثبوت ختم ہو جائے گا۔ اس لیے ایک خاندان کے طور پر ہم نے فیصلہ لیا ہے کہ جب تک ہمیں انصاف نہیں مل جاتا لاش کو ویسا ہی رہنے دیا جائے گا۔‘

خاندان پرامید ہے کہ عدالتیں نئے پوسٹ مارٹم کا حکم دے سکتی ہیں۔ 

اس خاندان نے اپنا کیس رواں سال مارچ میں چھتیس گڑھ ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے جمع کروایا کہ وہ کرونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کی وجہ سے درخواست دائر کرنے کے لیے طویل سفر کرنے سے قاصر تھے۔ ہائی کورٹ میں جلد ہی اس کیس کی سماعت متوقع ہے۔

آئی جی سندرراج کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال مئی میں ایک آزاد انکوائری پہلے ہی مکمل کی جا چکی ہے اور اس معاملے میں سکیورٹی فورسز کی غلطی ثابت نہیں ہوئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ایک لاش کو اس طرح محفوظ رکھنے سے پیدا ہونے والے صحت عامہ کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے گاؤں والوں کو روایتی طریقے سے تدفین کی رسومات کو مکمل کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

پولیس اہلکار دعویٰ کرتے ہیں کہ اس معاملے کو فساد پھیلانے اور مقامی آبادی کے جذبات سے کھیلنے کے لیے سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔  لیکن  بدرو کا یہ کیس ایسا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جب اس گاؤں کے رہائشیوں نے متنازع اموات کے بعد اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا ہو۔ 

یہ قتل پانچ سال قبل ایک اور واقعے کی یاد دلاتا ہے جب قبائلی برادری کے دو افراد کو بھارتی فوج نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اس واقعے میں بھیما کدتی نامی ایک نوجوان اور ایک 14 سالہ لڑکی، جن کا نام قانونی وجوہات کی بنا پر نہیں بتایا جا سکتا، سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

اس وقت بھی سرکاری بیانیہ کچھ اسی طرح تھا جس میں بتایا گیا کہ دو ’نکسل فارمیشن کے اراکین‘ مغربی باستر ڈویژن میں ’فائرنگ کے تبادلے‘ میں مارے گئے۔

بدرو کے معاملے کی طرح دونوں کے خاندان نے بھی سکیورٹی فورسز کے دعووں کی تردید کی اور ان پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا۔

خاندان نے عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں بتایا: ’وہ ماؤ نواز نہیں تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ گاؤں سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیرندول بازار سے گھر جاتے ہوئے فوج نے انہیں زبردستی اٹھا لیا تھا۔

ایک رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’پولیس نے انہیں پکڑ کر ان پر تشدد کیا۔‘

انہوں نے فورسز پر یہ الزام بھی لگایا کہ نوعمر لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’وہ انہیں پہاڑیوں پر لے آئے اور قتل کر دیا۔‘

اس کے بعد خاندان نے تقریباً 40 دنوں تک لاشوں کو محفوظ رکھا لیکن آخر کار آٹھ مارچ 2017 کو عدالت کی مداخلت اور دوسرے پوسٹ مارٹم کا حکم دینے کے بعد ان کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔

آئی جی سندرراج کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی گئی لیکن اس کے نتائج کو کبھی بھی عام نہیں کیا گیا۔

انہوں نے تشدد اور جنسی زیادتی کے الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ایک تحریری بیان میں دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’معاملے کی مجسٹریل انکوائری 17 نومبر 2017 کو مکمل ہو گئی تھی اور (فورسز کے خلاف) کوئی منفی بات ثابت نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں ایک نکتہ کو یقینی بنانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ماؤ نوازوں اور ان کے ہمدردوں کا یہ ایک عام طریقہ کار ہے کہ وہ سیکورٹی فورسز کے خلاف الزامات عائد کرتے ہیں جس کا مقصد سکیورٹی فورسز کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔‘

ادھر دونوں افراد کے اہل خانہ کی جانب سے عدالتی انکوائری، قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور مرنے والوں کے اہل خانہ کے لیے معاوضے کی درخواست زیر التوا ہے۔

قبائلی حقوق کے لیے سرگرم کارکن، سونی سوری، جو شاذ و نادر ہی میڈیا کو انٹرویو دیتی ہیں، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ دور دراز علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے لیے قبائلی برادریوں کے خلاف مظالم کو چھپانا اور متاثرین کو ماؤ نواز دہشت گرد قرار دینا آسان ہے۔

تقریباً 400 افراد پر مشتمل گام پور گاؤں بڑی حد تک بیرونی دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ اس میں کوئی سڑک یا دیگر ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہے لہذا یہاں صرف پیدل ہی پہنچا جا سکتا ہے جس کے لیے جنگل کے بڑے حصے اور پانی کی کئی ندیوں کو پار کرنا پڑتا ہے۔

اس گاؤں میں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی ہے اور موبائل فون نیٹ ورک فراہم کرنے والے ٹاور بھی موجود نہیں ہیں۔ یہاں تازہ پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور دیہاتی زیر زمین پانی تک رسائی کے لیے گڑھے کھودنے پر مجبور ہیں۔ قریب ترین سکول یہاں سے تقریباً 40 کلومیٹر دور کراندول نامی قصبے میں واقع ہے جہاں زیادہ تر بچے پہنچ نہیں پاتے۔

سوری کہتی ہیں: ’جب فورسز ان دنیا سے کٹے ہوئے علاقوں میں قبائلیوں کے خلاف مظالم کا ارتکاب کرتی ہیں تو ان سے جواب طلبی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو شہروں سے جا کر ان کی بات سن سکے۔ اور چونکہ وہ صرف گونڈی زبان بولتے اور سمجھتے ہیں جو ایک ایسی زبان ہے جسے میڈیا کے زیادہ تر لوگ نہیں سمجھتے اس لیے فورسز کے لیے ہر چیز آسان ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گا۔‘

متعدد باضابطہ تحقیقات میں اس الزام کو اہمیت دی گئی ہے کہ خطے میں بائیں بازو کی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے فوجی آپریشنز میں عام افراد کو پھنسایا جا رہا ہے۔

سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی جانب 2013 میں چھتیس گڑھ کے ایڈیسمیٹا خطے میں آٹھ افراد کے قتل کی تحقیقات کرنے والی عدالتی تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دیہاتیوں کے پاس اسلحہ موجود تھا جب کہ سیکورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ ماؤنوازوں کی فائرنگ سے شروع ہوا تھا۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے شاید ’گھبراہٹ میں فائرنگ کی ہوگی۔‘

بیجاپور ضلع کے سرکے گوڈا گاؤں میں 2012 میں 17 لوگوں کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ایک اور عدالتی انکوائری رپورٹ میں پتہ چلا کہ یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ ماؤنواز باغی تھے اور یہ کہ سکیورٹی فورسز نے قبائلی اجلاس کے اراکین پر یکطرفہ فائرنگ کی جس سے کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے جب کہ اجلاس کے ارکان کی طرف سے ان پر کوئی فائرنگ نہیں کی گئی تھی۔

لیکن عدالتی عمل کو ان رپورٹس کی اشاعت میں طویل تاخیر کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔ ان واقعات کے بالترتیب نو اور سات سال بعد یہ رپورٹس سامنے آئیں تھیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں ملوث نیم فوجی افسران کے خلاف ابھی تک کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ماؤ نواز شورش والے علاقوں میں سکیورٹی فورسز کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔

آئی جی سندرراج کی طرف سے شیئر کیے گئے ایک نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2000 میں ریاست کے قیام کے بعد سے صرف چھتیس گڑھ میں ماؤنواز باغیوں کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں ایک ہزار 234 فوجیوں کے ساتھ ساتھ ایک ہزار 782 مقامی شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق ملک بھر میں اسی سال سے اب تک تین ہزار 900 شہری اور دو ہزار 600 سے زیادہ فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

حکومت ریاست کے ان علاقوں کے رقبے کو کم کرنے میں بھی اہم کامیابیوں کا دعویٰ کرتی ہے جہاں باغی سرگرم ہیں۔ حکومت کے مطابق یہ رقبہ سن 2000 میں تقریباً 18 ہزار مربع کلومیٹر سے کم ہو کر رواں سال سات ہزار مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔

زیادہ سے زیادہ پولیس اور نیم فوجی وسائل اس مقصد کے لیے مصروف عمل ہیں اور صرف پچھلے تین سالوں میں صرف باستر رینج میں 37 نئے سکیورٹی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔

ایک پولیس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کیمپوں میں سے ہر ایک ’ایک مربوط ترقیاتی مرکز‘ کے طور پر کام کرتا ہے جو نکسل بغاوت سے متاثرہ علاقوں میں سڑکوں، پلوں کی تعمیر، بجلی اور موبائل سروس کی فراہمی، سکول اور پبلک ڈسٹری بیوشن شاپس جیسے ترقیاتی کاموں میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ 

لیکن بہت سے مقامی لوگ اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ اضافی سکیورٹی وسائل ان کے فائدے کے لیے ہیں۔

ماؤ نواز تنازعے سے متاثرہ بہت سے دیہی علاقے غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہیں اور سوری کا کہنا ہے کہ زمینوں پر قبضے مبینہ مظالم کی ایک توجیہہ فراہم کرتے ہیں، مقامی لوگوں پر باغی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور انہیں مار دیا جاتا ہے تاکہ ان کی زمین کان کنی اور دیگر استحصال کے مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکے۔

مقامی لوگ خطے میں نئی سڑکوں کی ضرورت سے زیادہ چوڑائی کا حوالہ دیتے ہیں جو بعض جگہوں پر 20 میٹر چوڑی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پہاڑی سلسلوں کو کان کنی کے بھاری آلات کے لیے کھولنے کے لیے نیا انفراسٹرکچر بنایا جا رہا ہے نہ کہ اس لیے کہ قبائلی کمیونٹیز اپنے بچوں کو سکول لے جا سکیں۔

بیچپال گاؤں میں پولیس کیمپ کے قیام اور ایک نئی سڑک کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک مقامی شہری آشو مارکم کا کہنا ہے: ’جیسے جیسے سکیورٹی کیمپ قائم کیے جاتے ہیں، فورسز نہ صرف معمول کے مطابق قبائلیوں کو ہراساں کرتی ہیں بلکہ ہمیں یہ کہہ کر گرفتار بھی کرتی ہیں کہ ہم ماؤنواز ہیں۔ وہ ہمارے مویشیوں کو مارتے ہیں، انہیں کھاتے ہیں اور جب بھی ہم علاقے میں کہیں بھی جائیں وہ ہمیں معمول کے مطابق پوچھ گچھ کے لیے روکتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان سڑکوں سے خطے میں ترقی ہوگی۔ یہ کس ترقی کی بات کر رہے ہیں؟ بیچپال قصبے میں ایک ہسپتال ہے لیکن وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں بیٹھتا۔ مریض انتظار کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ سڑکیں ہمارے لیے نہیں ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ کان کنی کی سرگرمیوں میں مدد کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اگر وہاں کان کنی شروع ہو جائے تو زمینی آلودگی ہو گی۔ ہمارے کھیتوں کو نقصان پہنچے گاْ‘

مارکم کہتے ہیں: ’ہمارے کھیتوں، ہمارے جانوروں اور ہماری زندگیوں کی صحت ان قدرتی وسائل پر منحصر ہے اور اس لیے ہمیں ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اگر مزید کیمپ قائم کیے گئے تو ہم لڑیں گے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا