ایرانی ریاست سے منسلک اخبار تہران ٹائمز نے ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ایک عرب میگزین کے ایک سروے کے مطابق 93 فیصد پاکستانیوں نے ایک بار پھر عمران خان میں بطور وزیراعظم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
According to a survey conducted by Arab Magazine, 93% of Pakistanis have once again expressed confidence in Imran Khan as the Prime Minister. pic.twitter.com/nNLeInsl4M
— Tehran Times (@TehranTimes79) April 30, 2022
تاہم تہران ٹائمز کی 30 اپریل کو کی گئی یہ ٹویٹ اور اس میں موجود مواد حقائق کے منافی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس ٹویٹ کے تقریباً 24 گھنٹے کے بعد تہران ٹائمز کو ایک اور وضاحتی ٹویٹ جاری کرنا پڑی۔اس ٹویٹ میں صارفین کو بتایا گیا ہے کہ یہ پول 28 ستمبر 2020 کو کیا گیا تھا اور اس سروے میں صرف ’میگزین‘ کے صارفین نے شرکت کی تھی نہ کے تمام پاکستانیوں نے۔
The poll, conducted on September 28, 2020, was done among the magazine audiences only, not within Pakistan.https://t.co/8BJdGP2wri
— Tehran Times (@TehranTimes79) May 1, 2022
تہران ٹائمز نے وضاحت تو جاری کی ہے مگر یہ وضاحت بھی حقائق کے منافی ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ تہران ٹائمز جس سروے اور میگزین کا ذکر کر رہا ہے وہ دراصل کوئی میگزین نہیں بلکہ ’خلیج میگ‘ کے نام سے ایک جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے جس کی اصلیت پہلے بھی متعدد کئی اخباروں میں بارہا پیش کی جا چکی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق نہ تو اس میگزین کا تعلق کسی عرب ملک سے ہے اور نہ ہی ٹوئٹر پر ہونے والے سروے کو کسی ایک ملک کے عوام کی رائے تصور کیا جا سکتا ہے۔
سروے کی اصلیت
خلیج میگ نامی اس ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 26 ستمبر 2020 کو ایک ٹوئٹر پول شروع کیا گیا تھا جس میں صارفین سے پوچھا گیا تھا کہ ان کی نظر میں گذشتہ 15 سالوں میں کون سب سے بہتر وزیراعظم تھے۔
اس سروے میں 16 ہزار سے زائد ووٹ ڈالے گئے تھے جن میں سے 93.2 فیصد نے عمران خان کو چنا تھا۔
Who was/is the better Prime Minister of Pakistan in the last 15 years?
— Khaleej Mag (@KhaleejMag) September 26, 2020
جب یہ سروے جاری ہوا تھا تو اس وقت بھی کئی اخباروں بشمول ریڈیو پاکستان نے اس کو شائع کیا تھا۔
مگر اس وقت بھی متعدد ٹوئٹر صارفین نے سروے کی ساکھ پر سوال اٹھائے تھے۔
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ ایرانی ریاست سے منسلک اخبار اس سروے کو ابھی کیوں شیئر کرے گا اور اسے بغیر تحقیق کے عرب میگزین کا سروے کیوں کہے گا؟
خلیج میگ کیا ہے؟
خلیج میگ کی خبروں کو کئی بار متعدد اخباروں نے استعمال کیا ہے۔
خلیج میگ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تحریک انصاف کے حق میں اور مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے خلاف متعدد ٹویٹس گذشتہ سالوں میں سامنے آتی رہی ہیں۔
PTI activist Uzma Kardar on the way of #IslamabadLockDown#TsunamiComesBack#MaryamKoPakroChSb #چلو_چلو_بنی_گالا_چلو pic.twitter.com/6oMUbsGggU
— Khaleej Mag (@KhaleejMag) October 30, 2016
جہاں تہران ٹائمز سمیت متعدد اخبار خلیج میگ کو عرب اخبار کہتے ہیں وہیں خلیج میگ کے اپنے لنکڈ ان اکاؤنٹ پر اس کا پتہ لاہور کا درج ہے۔
لنکڈ ان پیج کے مطابق اس کا دفتر لاہور لٹن روڈ پر موجود ہے اور اس کے لیے دو سے 10 ملازمین کام کرتے ہیں۔
زاہد اقبال نامی ایک ٹوئٹر صارف اس سے پہلے 2015 میں خلیج میگ کے مالک ہونے کا بذریعہ ٹویٹ اعلان کر چکے ہیں مگر اب وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر چکے ہیں۔ مگر ان کی ٹائم لائن پر ابھی بھی خلیج میگ کا مواد موجود ہے۔ ان کا ہینڈل @iMZahidiqbal ہے۔
انٹرنیٹ ویب سائٹ ریکارڈز کے مطابق بھی خلیج میگ کی ویب سائٹ 2015 میں رجسٹر کی گئی تھی مگر اس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ 2009 میں بنایا گیا تھا۔2015 سے پہلے یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ موجودہ وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کے نام سے چلایا جا رہا تھا اور اس سے تحریک انصاف کے حق میں ٹویٹس کی جاتی تھیں۔ اس اکاؤنٹ کا پرانا ہینڈل @hinarobani تھا۔
@Hinarobani Respected Ms Or Mrs Hina Your the most powerful and Beautiful you can be a PM of Pakistan, do what you think
— Shah MSJ (@MSJshah) April 30, 2013
Is this a genuine account ? Hmmmm Now being 'followed' by @Hinarobani
— Derek O'Brien | ডেরেক ও'ব্রায়েন (@derekobrienmp) January 27, 2013
Official Twitter of Foreign Affairs Minister of Pakistan
خلیج میگ نے اپنے آپ کو ایک اصلی اور مصدقہ میگزین کا روپ دینے کے لیے معروف اخبار کی نقل بھی کی ہے۔ خلیج میگ کا لوگو بھی معروف عرب اخبار خلیج ٹائمز سے ملتا جلتا ہے۔
خلیج میگ نے صرف یہی نہیں بلکہ اس طرح کے متعدد سروے کیے ہیں جن سے تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح کا سروے سات دسمبر 2020 میں کیا گیا جس میں یہ دکھایا گیا کہ 86 فیصد پاکستانی 2023 انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے ووٹ کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سروے کے نتائج کو معروف اخبار ایکسپریس ٹریبیون نے بھی رپورٹ کیا تھا۔
More than 86% of Pakistanis are supporting PTI for Next Election in 2023https://t.co/nahdpV8Vbq#politics #Pakistan #NawazSharif #PDM_NextStopLahore #ImranKhan #Corruption #LahoreReadyFor13Dec #LahoreRally #Elections #transparency
— Khaleej Mag (@KhaleejMag) December 7, 2020
اسی طرح بھارت کے حوالے سے بھی اس اکاؤنٹ سے ماضی میں غلط خبریں جاری کی جاتی رہی ہیں۔
جیسے اس ٹویٹ میں دکھایا گیا ہے کہ مہاتما گاندھی برطانوی ملکہ الزبتھ کے ساتھ رقص کر رہے ہیں مگر دراصل یہ گاندھی نہیں بلکہ آسٹریلین اداکار ہیں جنہوں نے گاندھی کا روپ دھار رکھا ہے۔
" Very Rare Picture" Mahatma Gandhi, 2 nd Queen Elizabeth are in a dance party... pic.twitter.com/YmoliJa3PU
— Khaleej Mag (@KhaleejMag) January 26, 2016
اسی طرح فیس بک پر بھی خلیج میگ کا پیج 12 فروری 2016 کو بنایا گیا اور اس وقت اس کا نام ’نادیہ اسلم‘ رکھا گیا تھا۔
اس کے بعد اگے سات دنوں میں اس پیج کا نام متعدد خواتین کے نام پر تبدیل کیا گیا۔ 13 فروری: یاسمین خان؛ 13 فروری: نادیہ اسلم؛ 18 فروری: واؤ ویڈیوز؛ 18 فروری: عائشہ عمر؛ 19 فروری: نادیہ اسلم؛ 19 فروری: عائشہ عمر۔
20 اپریل 2016 کو اس پیج کا نام ’خلیج میگ ایکس عمر‘ رکھا گیا اور چار جون 2016 کو بالآخر ’خلیج میگ‘ کا نام دیا گیا۔
خلیج میگ نے اپنی ویب سائٹ، ٹوئٹر اور فیس بک سے یہ دعوی تو ہٹا دیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کا میگزین ہے مگر اس کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اب بھی وہ اپنے آپ کو متحدہ عرب امارات کا میگزین ہی کہتا ہے۔