ایرانی ریاست سے منسلک اخبار کی عمران خان کے متعلق غلط خبر

اخبار تہران ٹائمز نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت کے حوالے سے ایک ’عرب میگزین‘ کے سروے کا حوالہ دیا، تاہم اس میگزین کا بظاہر کسی عرب ملک سے تعلق نہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان 27 اپریل 2022 کو لاہور میں پی ٹی آئی کارکنان سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایرانی ریاست سے منسلک اخبار تہران ٹائمز نے ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ایک عرب میگزین کے ایک سروے کے مطابق 93 فیصد پاکستانیوں نے ایک بار پھر عمران خان میں بطور وزیراعظم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

تاہم تہران ٹائمز کی 30 اپریل کو کی گئی یہ ٹویٹ اور اس میں موجود مواد حقائق کے منافی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس ٹویٹ کے تقریباً 24 گھنٹے کے بعد تہران ٹائمز کو ایک اور وضاحتی ٹویٹ جاری کرنا پڑی۔اس ٹویٹ میں صارفین کو بتایا گیا ہے کہ یہ پول 28 ستمبر 2020 کو کیا گیا تھا اور اس سروے میں صرف ’میگزین‘ کے صارفین نے شرکت کی تھی نہ کے تمام پاکستانیوں نے۔

تہران ٹائمز نے وضاحت تو جاری کی ہے مگر یہ وضاحت بھی حقائق کے منافی ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ تہران ٹائمز جس سروے اور میگزین کا ذکر کر رہا ہے وہ دراصل کوئی میگزین نہیں بلکہ ’خلیج میگ‘ کے نام سے ایک جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے جس کی اصلیت پہلے بھی متعدد کئی اخباروں میں بارہا پیش کی جا چکی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق نہ تو اس میگزین کا تعلق کسی عرب ملک سے ہے اور نہ ہی ٹوئٹر پر ہونے والے سروے کو کسی ایک ملک کے عوام کی رائے تصور کیا جا سکتا ہے۔

سروے کی اصلیت

خلیج میگ نامی اس ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 26 ستمبر 2020 کو ایک ٹوئٹر پول شروع کیا گیا تھا جس میں صارفین سے پوچھا گیا تھا کہ ان کی نظر میں گذشتہ 15 سالوں میں کون سب سے بہتر وزیراعظم تھے۔

اس سروے میں 16 ہزار سے زائد ووٹ ڈالے گئے تھے جن میں سے 93.2 فیصد نے عمران خان کو چنا تھا۔

جب یہ سروے جاری ہوا تھا تو اس وقت بھی کئی اخباروں بشمول ریڈیو پاکستان نے اس کو شائع کیا تھا۔

مگر اس وقت بھی متعدد ٹوئٹر صارفین نے سروے کی ساکھ پر سوال اٹھائے تھے۔

یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ ایرانی ریاست سے منسلک اخبار اس سروے کو ابھی کیوں شیئر کرے گا اور اسے بغیر تحقیق کے عرب میگزین کا سروے کیوں کہے گا؟

خلیج میگ کیا ہے؟

خلیج میگ کی خبروں کو کئی بار متعدد اخباروں نے استعمال کیا ہے۔

خلیج میگ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تحریک انصاف کے حق میں اور مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے خلاف متعدد ٹویٹس گذشتہ سالوں میں سامنے آتی رہی ہیں۔

جہاں تہران ٹائمز سمیت متعدد اخبار خلیج میگ کو عرب اخبار کہتے ہیں وہیں خلیج میگ کے اپنے لنکڈ ان اکاؤنٹ پر اس کا پتہ لاہور کا درج ہے۔

لنکڈ ان پیج کے مطابق اس کا دفتر لاہور لٹن روڈ پر موجود ہے اور اس کے لیے دو سے 10 ملازمین کام کرتے ہیں۔

زاہد اقبال نامی ایک ٹوئٹر صارف اس سے پہلے 2015 میں خلیج میگ کے مالک ہونے کا بذریعہ ٹویٹ اعلان کر چکے ہیں مگر اب وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر چکے ہیں۔ مگر ان کی ٹائم لائن پر ابھی بھی خلیج میگ کا مواد موجود ہے۔ ان کا ہینڈل @iMZahidiqbal ہے۔

انٹرنیٹ ویب سائٹ ریکارڈز کے مطابق بھی خلیج میگ کی ویب سائٹ 2015 میں رجسٹر کی گئی تھی مگر اس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ 2009 میں بنایا گیا تھا۔2015 سے پہلے یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ موجودہ وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کے نام سے چلایا جا رہا تھا اور اس سے تحریک انصاف کے حق میں ٹویٹس کی جاتی تھیں۔ اس اکاؤنٹ کا پرانا ہینڈل @hinarobani تھا۔

خلیج میگ نے اپنے آپ کو ایک اصلی اور مصدقہ میگزین کا روپ دینے کے لیے معروف اخبار کی نقل بھی کی ہے۔ خلیج میگ کا لوگو بھی معروف عرب اخبار خلیج ٹائمز سے ملتا جلتا ہے۔

خلیج میگ نے صرف یہی نہیں بلکہ اس طرح کے متعدد سروے کیے ہیں جن سے تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح کا سروے سات دسمبر 2020 میں کیا گیا جس میں یہ دکھایا گیا کہ 86 فیصد پاکستانی 2023 انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے ووٹ کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سروے کے نتائج کو معروف اخبار ایکسپریس ٹریبیون نے بھی رپورٹ کیا تھا۔

اسی طرح بھارت کے حوالے سے بھی اس اکاؤنٹ سے ماضی میں غلط خبریں جاری کی جاتی رہی ہیں۔

جیسے اس ٹویٹ میں دکھایا گیا ہے کہ مہاتما گاندھی برطانوی ملکہ الزبتھ کے ساتھ رقص کر رہے ہیں مگر دراصل یہ گاندھی نہیں بلکہ آسٹریلین اداکار ہیں جنہوں نے گاندھی کا روپ دھار رکھا ہے۔

اسی طرح فیس بک پر بھی خلیج میگ کا پیج 12 فروری 2016 کو بنایا گیا اور اس وقت اس کا نام ’نادیہ اسلم‘ رکھا گیا تھا۔

اس کے بعد اگے سات دنوں میں اس پیج کا نام متعدد خواتین کے نام پر تبدیل کیا گیا۔ 13 فروری: یاسمین خان؛ 13 فروری: نادیہ اسلم؛ 18 فروری: واؤ ویڈیوز؛ 18 فروری: عائشہ عمر؛ 19 فروری: نادیہ اسلم؛ 19 فروری: عائشہ عمر۔

20 اپریل 2016 کو اس پیج کا نام ’خلیج میگ ایکس عمر‘ رکھا گیا اور چار جون 2016 کو بالآخر ’خلیج میگ‘ کا نام دیا گیا۔

خلیج میگ نے اپنی ویب سائٹ، ٹوئٹر اور فیس بک سے یہ دعوی تو ہٹا دیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کا میگزین ہے مگر اس کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اب بھی وہ اپنے آپ کو متحدہ عرب امارات کا میگزین ہی کہتا ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا