طالبان کا خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس ’نہ دینے کا حکم‘

شمال مغرب شہر ہرات ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں نسبتاً ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جہاں خواتین کا ڈرائیونگ کرنا معلوم کی بات ہے۔

یکم ستمبر 2015 کی اس تصویر میں ایک افغان خاتون کابل میں ڈرائیونگ سیکھ رہی ہیں (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

افغانستان میں طالبان حکام کی جانب سے ہرات شہر میں ڈرائیونگ سکولوں کے انسٹرکٹرز سے خواتین کو لائسنس جاری نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔

ڈرائیونگ سکولوں کے ذمہ داران اور ماہرین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان کی طرف سے انہیں خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا روکنے کا کہا گیا ہے تاہم سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔

ہرات ٹریفک مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جان آغا اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس جاری نہ کرنے کی زبانی ہدایات موصول ہوئی تھیں لیکن ہمیں شہر میں خواتین کو ڈرائیونگ سے روکنے کے باضابطہ احکامات نہیں ملے ہیں۔‘

افغانستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کو کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا رہتا ہے وہاں خواتین کے لیے بڑے شہروں میں گاڑی چلانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

شمال مغرب شہر ہرات ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں نسبتاً ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جہاں خواتین کا ڈرائیونگ کرنا معلوم کی بات ہے۔

طالبان نے بڑے پیمانے پر تحریری قومی حکم نامے جاری کرنے سے گریز کرنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے اور کسی جگہ کوئی نیا فیصلہ نافذ کرنا ہو تو اسے زبانی طور پر عمل میں لایا جاتا ہے۔

خواتین کا احتجاج

ہرات میں ڈرائیونگ کوچ 29 سالہ عدیلہ عدیل کا کہنا ہے کہ طالبان اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ آنے والی نسل کو وہ مواقع نہ ملیں جو ان کی ماؤں کو دستیاب تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں ڈرائیونگ کا سبق نہ دینے اور لائسنس جاری نہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔‘

ایک دوسری خاتون شیما وفا نے عید کی شاپنگ کے لیے بازار جاتے ہوئے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ میں اپنے بھائی یا شوہر کے گھر آنے کا انتظار کیے بغیر اپنی گاڑی میں اپنے خاندان کو ڈاکٹر کے پاس لے جا سکوں۔‘

برسوں سے اپنی گاڑی خود چلانے والی فرشتہ یعقوبی کا کہنا ہے کہ درحقیقت ایک عورت کے لیے اپنی گاڑی خود چلانا زیادہ محفوظ ہے۔

26 سالہ زینب محسنی نے حال ہی میں لائسنس کے لیے درخواست دی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین اپنی گاڑیوں میں مردوں کی طرف سے چلائی جانے والی ٹیکسیوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں۔

’نوجوان خاتون اس نئے اقدام کو ایک اضافی علامت کے طور پر دیکھتی ہے کہ نیا نظام افغان خواتین کو چند بچ جانے والے حقوق سے نہیں روکے گا۔‘

طالبان نے گذشتہ اگست میں اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے 1996 اور 2001 کے درمیان اپنے سابقہ دور حکومت کے مقابلے میں زیادہ لچکدار نظام کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود طالبان پر سخت گیر طرز حکومت نافذ کرنے اور خواتین کے بنیادی حقوق دبانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین