سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جنرل سیکریٹری اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ وہ آج بھی ان سوالوں کے جواب کے منتظر ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے موقعے پر آدھی رات کو عدالتیں کیوں کھلیں اور قیدیوں والی وین کیوں آئی؟
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں اسد عمر سے پوچھا گیا کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کی رات وزیر اعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ ووٹنگ سے قبل اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔
اسد عمر کے مطابق پہلے فیصلہ ہوا کہ دو سے تین دن تک تحریک عدم اعتماد پر بحث ہو گی اور سب کو تقریر کرنے کا موقع دیا جائے گا کیوں کہ تاریخی چیز ہو رہی تھی اور ریکارڈ پر ہو کہ لوگوں کا کیا خیال تھا جو مداخلت ہوئی سازش ہوئی۔
اسد عمر کا کہنا تھا: ’عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں گنجائش چھوڑی تھی کہ اجلاس ختم نہیں کر سکتے مگر ملتوی کیا جا سکتا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا اس دوران سپیکر قومی اسمبلی آئے اور فیصلہ ہوا کہ آج رات ووٹنگ کرا دی جائے۔
’نہ ہمیں وہاں بندوقیں نظر آئیں نہ کوئی فوجی وہاں آئے نہ کوئی ہمیں کوئی دھمکی نظر آئی کہ مارشل لا لگنے والا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔‘
انہوں بتایا کہ قیدیوں کی وین کا بھی انہیں اگلے دن علم ہوا کیونکہ وہ اس دن ٹی وی نہیں دیکھ رہے تھے۔
اسد عمر نے کہا: ’ہم سوال کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں کہ اس رات کو عدالتیں کھل کیوں رہی تھیں، یہ قیدیوں کی گاڑیاں پہنچ کیوں رہیں تھیں، اس سوال کا جواب پوری قوم جاننا چاہتی ہے۔‘
پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مبینہ سازش کب شروع ہوئی؟ اس پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک آنے سے قبل اس مراسلے میں واضع طور پر لکھا ہوا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک آ رہی ہے جو ناکام ہوئی اور عمران خان وزیر اعظم رہے تو پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی اور پاکستان تنہائی کا شکار ہوگا۔
ان کا اس مراسلے کے حوالے سے مزید کہنا تھا کہ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی تو سب چیزیں معاف کر دی جائیں گی۔
اسد عمر نے بتایا کہ اپوزیشن انفرادی ارکان اسمبلی سے رابطے کر رہی تھی تو اس کی خبریں وزیر اعظم کو انٹیلی جنس ایجنسیز کے ذریعے آتی تھیں۔
’انہوں نے نومبر دسمبر میں بتایا کہ اگلے دو سے تین ماہ بہت اہم ہیں اور پھر فروری میں انہوں نے بتایا کہ مارچ کا مہینہ بہت اہم ہے اور بالکل ان کے پاس خبریں آ رہی تھیں اور وہ بتا رہے تھے اور مراسلہ بعد میں آیا۔‘
سابق وفاقی وزیر کے مطابق قومی سلامتی کے پہلے اجلاس کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو دوسرے اجلاس کی صدارت شہباز شریف کر رہے تھے، احسن اقبال بھی اس میں موجود تھے اور انہوں نے کہا تمام چیزیں جو پہلی میٹنگ میں کہیں گئیں ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں واضع طور پر لکھا تھا کہ بیرون مداخلت کی گئی۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے اسد عمر کو الوداعی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا ہے۔
اسد عمر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس دعوت کو قبول کریں گے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر ایک جمہوری طریقے سے پاکستان میں حکومت ہو تو یہ بہت اچھا طریقہ ہے۔ نئی حکومت آئے اور پچھلی حکومت کے ساتھ بیٹھے اور سمجھیں کیا کر رہی تھی حکومت۔
ان کا کہنا تھا اس حکومت کی قانونی حیثیت کو ہی درست نہیں سمجھا جا رہا یہ بہت چھوٹی چیز ہے۔
’میں ابھی آپ کے سامنے آفر کر رہا ہوں۔ الیکشن کروائیں، ن لیگ کی حکومت اگر منتخب ہو کر آتی ہے اور احسن اقبال دوبارہ وزیر بنتے ہیں اور وہ کہیں گے تو میں حاضر ہو جاؤں گا اور کہوں گا کہ بتائیں پاکستان کے لیے کیا مدد کی جاسکتی ہے۔‘
اسد عمر سے پوچھا گیا کہ اگر الیکشن کے بعد بھی مطلوبہ نتائج نہیں ملتے تو کیا تحریک انصاف احتجاج کرے گی تو ان کا جواب تھا کہ ’دھاندلی نہ کریں تو احتجاج بھی نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے جہانگیر ترین کے حوالے سے کہا کہ تحریک انصاف نے کبھی ان کے خلاف بات کی اور نہ انہوں نے پارٹی کے خلاف کبھی بات کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جس دن جہانگیر ترین کا سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اس دن میں نے ٹویٹ میں جو بات لکھی تھی آج بھی اس پر قائم ہوں۔
’میں نے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ اگر عمران خان کے بعد کسی نے سب سے زیادہ تحریک انصاف کے لیے کام کیا تو وہ جہانگیر ترین صاحب ہیں۔‘
اسد عمر کا جہانگیر ترین کا ن لیگ کو سپورٹ کرنے کے بارے میں کہنا تھا کہ جس طرح انہوں نے مسلم لیگ ن کے خلاف جدوجہد کی، جو جو انہوں نے اس پارٹی اور اس کے لیڈرز کے خلاف کہا تو ان کا بنتا نہیں تھا وہاں جانا۔
اسد عمر سے پوچھا گیا آیا جہانگیر ترین واپس تحریک انصاف میں آ سکتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا جہانگیر ترین آج فون کریں تو میں ان سے ملنے پہنچ جاؤں گا۔ ’ہم نے ساتھ کام کیا ہوا ہے مشکل وقت سے ساتھ گزرے ہیں۔‘
پی ٹی آئی حکومت کی تین بڑی غلطیوں پر پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں سیاست کو نظر انداز کیا۔
’وزیر اعظم صبح سے شام تک گورننس میں اتنے مصروف رہتے تھے۔ میٹنگ پر میٹنگ۔ میں نے خود وزیر اعظم سے کہا کہ ہم سیاست کو نظر انداز کر رہے ہیں۔‘
’دوسرا میں کہتا تھا کہ عمران خان کا عوام سے رابطہ نہیں ٹوٹنا چاہیے تھا۔ فارمولا یہ ہے کہ عمران خان بنی گالہ میں تحریک انصاف نیچے، عمران خان عوام میں تحریک انصاف اوپر۔‘
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف میڈیا میں سوچی سمجھی مہم چلائی گئی جسے ہم نے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی سے لیا۔
انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں اعتراف کیا کہ ان کی حکومت میں احتساب کا عمل کامیاب نہ ہو سکا اور اس میں بہتری کی گنجائش موجود تھی۔