پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی کے خلاف ریفرنس خارج

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان قومی اسمبلی کے خلاف ریفرنس مسترد کر دیا ہے۔

26 اگست 2008 کو الیکشن کمیشن کی عمارت کے باہر سکیورٹی اہلکار معمول کی سرچ میں مصروف ہے (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان قومی اسمبلی کے خلاف ریفرنس مسترد کر دیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے بدھ کو متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ منحرف ارکان قومی اسمبلی کے خلاف ریفرنس آئین کے مطابق ثابت نہیں ہوئے۔

چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت تین رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ خارج، منحرف ارکان پر 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

واضح رہے کہ سندھ ہاؤس میں پاکستان تحریک انصاف کے 20 اراکین اسمبلی کی موجودگی اور جماعت سے منخرف ہونے پر یہ ریفرنسز سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 14 اپریل کو الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے تھے۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ منحرف ارکان کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کی جائے۔

الیکشن کمیشن نے بدھ کو دلائل مکمل ہونے پر ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے 28 اپریل کو ریفرنسز پر پہلی سماعت کی تھی اور بدھ تک اس پر چار سماعتیں ہوئیں۔

ریفرنس میں منخرف اراکین میں راجہ ریاض، نور عالم خان، فرخ الطاف، احمد حسین ڈھیر، رانا قاسم نون، غفار وٹو، مخدوم سمیع الحسن گیلانی، مبین احمد باسط بخاری، عامر گوپانگ، اجمل فاروق کھوسہ، ریاض مزاری، جویریہ ظفر، وجیہہ قمر، نزہت پٹھان، رمیش کمار، عامر لیاقت حسین،ع اصم نذیر، نواب شیر و سیر، افضل ڈھانڈلہ کے نام شامل ہیں۔

دوران سماعت ممبر الیکشن کمیشن نے نور عالم کے وکیل سے پوچھا کہ کیا نور عالم خان نے تحریک عدم اعتماد کے دن ووٹ کاسٹ کیا؟ جس پر ان کے وکیل گوہر علی نے کہا کہ نور عالم خان نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

انہوں نے کمیشن کو مزید بتایا کہ ان کے موکل پر آرٹیکل 63 ون (اے) کا اطلاق نہیں ہوتا۔

نور عالم خان کے وکیل گوہر خان نے دلائل میں کہا کہ ’نور عالم نے پی ٹی آئی شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا تھا کہ نہ پی ٹی آئی چھوڑی ہے اور نہ ہی پارلیمانی پارٹی۔‘

انہوں نے کہا کہ نور عالم نے تین اپریل کو اجلاس میں شرکت کی کیونکہ پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ اجلاس میں شرکت کریں۔

سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟

اس سے قبل چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے بدھ کو اسلام آباد میں آرٹیکل 63 اے کیس کی سماعت کی۔ جہاں سپریم کورٹ میں مسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق کو گذشتہ سماعت پر عدالت نے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا میں منحرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ نہیں بلکہ نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔‘ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’انڈیا کے 10 شیڈول میں منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کتنی ہے؟ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سیاست دان چور ہیں؟ جب تک تحقیقات نہیں کی جاتیں تو ایسے بیان کیوں دیتے ہیں؟‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اٹھائیس مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر قرارداد منظور ہوئی۔ 31 مارچ کو تحریک پر بحث ہونی تھی۔ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی۔ اکتیس مارچ کو ارکان نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرینس سن رہے ہیں۔ منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل 63 اے کا کوئی مقصد ہے۔ آئینی ترامیم کے ذریعے 63 اے کو لایا گیا۔‘

صدر مملکت نے منحرف اراکین سے متعلق آرٹیکل63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر آرٹیکل 63 اے پر رائے دے گی۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان نے دلائل دیے کہ اگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو جماعت اپنی سیٹ واپس لے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اس کی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے۔ ’جس نے پیسے لے کر انحراف کیا اس کی سزا سخت ہونی چاہیے۔ منحرف اراکین نے آخر کار عوام میں جاکر ان کا سامنا کرنا ہے۔‘

اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ انحراف کرنے والوں کے لیے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ’وہ لفظ میں استعمال نہیں کروں گا۔ منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ’پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ کی دلیل تسلیم کر لیں تو سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی۔ اس طرح سارا نظام تباہ ہو جائے گا۔ پارٹی ڈسپلن نہیں ہوگا تو سیاسی جماعت میں انتشار ہوگا۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 17 (2)کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے حقوق کا آرٹیکل 17 اور 63 اے کی موجودگی میں رابطہ کہاں منقطع ہو جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’1973 کے آئین میں قانون ساز سسٹم کو مستحکم کرنا چاہتے تھے۔ 1985 میں آرٹیکل 96 کو ختم کردیا گیا۔ 1985 کے انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر کرائے گئے جب کہ سپریم کورٹ نے 1989 قرار دیا کہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں۔ اس کے بعد آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا۔‘

سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان نے دلائل مکمل کیے تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے کہا کہ عدالت کے سامنے بڑے اہم سوالات ہیں۔ ایسے معاملات پر کہیں لائن کھینچنا پڑے گی۔ اٹارنی جنرل پیر کو صدارتی ریفرنس پر ہماری معاونت کریں۔

’کیا آرٹیکل 63 اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے۔ کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں کہ پارٹی سربراہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کاروائی کرے۔ پارٹی سربراہ نہ چاہے تو کارروائی نہ کرے۔ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض ایک رسمی آرٹیکل سمجھ لیں۔ کیا آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے بھی منسلک ہے۔ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض شوپیس آرٹیکل سمجھ لیں۔ کیا آرٹیکل 63 اے کا کوئی اثر بھی ہونا چاہئے؟‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان، دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے۔ عدالت میں فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین آزادی اظہار رائے کا حق بھی دیتا ہے یہاں کہا جا رہا ہے کہ منحرف رکن کی سزا بڑھا دیں۔‘

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالتی بحث سے کسی نہ کسی سمت کا تعین ہوجائے گا۔

عدالت نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان