کشمیر کی حلقہ بندی

حیرانی کی بات یہ ہے کہ عام کشمیریوں کی توجہ حلقہ بندی کی رپورٹ پر اتنی نہیں جتنی اس بات پر ہے کہ کیا جموں و کشمیر کا کوئی محکمہ بچا ہے جہاں کوئی کشمیری مسلمان سربراہ ہے؟

23  جولائی، 2020 کو سری نگر میں ایک شخص دفتر میں کام کر رہا ہے (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں۔

 

حکومت بھارت کے مقرر کردہ حلقہ بندی کمیشن کی گذشتہ ہفتے رپورٹ جاری ہونے کے فوراً بعد کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں نے اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کا مقصد مسلم اکثریت کو بے اختیار کرکے ہندوتوا پارٹی کو مضبوط کرنا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے جسٹس (ر) رنجنا پرکاش ڈیسائی کی سربراہی میں تین رُکنی کمیشن دو سال قبل اُس وقت بنایا جب جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری ختم کرکے اسے دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

سیاسی اور عوامی حلقوں نے رپورٹ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے خطے کو دو ڈویژن میں منقسم اور جموں کی سیٹیں بڑھا کر مستقبل میں بی جے پی کی جیت کو یقینی بنایا ہے۔

بظاہر نئی حلقہ بندی کے لیے 2011 کے شماریات کی کسوٹی رکھی گئی ہے مگر اس کے مطابق کُل آبادی ایک کروڑ 22 لاکھ میں کشمیر کی 68 لاکھ آبادی کے لیے ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ 53 لاکھ آبادی والے جموں کو مزید چھ سیٹیں دی گئی ہیں۔

اب اسمبلی کی83 سے بڑھا کر90  سیٹیں ہوں گی جس میں کشمیر کو 48 اور جموں کی 43 ہوں گی۔

پہلی بار وادی سے ہجرت کرنے والے کشمیری پنڈتوں کے لیے دو نشستیں مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور درجہ فہرست ذاتوں، قبیلوں کے لیے نو حلقے محفوظ کر لیے گئے ہیں جس میں جموں کو چھ اور کشمیر کو تین حاصل ہوئی ہیں۔

جموں و کشمیر میں رہائش پذیر پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کے لیے سفارش کی گئی ہے کہ اُن کے لیے بعض نشستوں پر امیدواروں کو نامزد کرنا چاہیے۔

حقیقت میں دیکھیں تو جموں کی 43، کشمیری پنڈتوں کی دو سیٹیں، درجہ فہرست قبیلوں کی نو سیٹیں بی جے پی کے کھاتے میں خود بخود آنے کی اُمید ہے۔

مزید نشستوں کا ثمر یہ ہوگا کہ بی جے پی اگلے انتخابات میں حکومت بنانے کی اہل ہوگی جو اس کا ایک دیرینہ خواب بھی رہا ہے۔

کشمیر کی سیاسی جماعتیں اب وادی تک محدود ہوگئی ہیں۔ وہ نہ صرف اندرونی طور پر بکھری پڑی ہیں بلکہ ان کے سرکردہ کارکن مزید نئی قومی اور مقامی جماعتوں میں پناہ لینے کے عمل پر گامزن بھی ہیں۔

آثار بتا رہے ہیں کہ کشمیر کی کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کرسکتی اور نہ حکومت بنانے کی اہل بن سکتی ہے کیونکہ ان جماعتوں کی جموں میں رہی سہی ساکھ پہلے ہی ختم ہوچکی ہے اور پھر اب ہندو مسلم کی تقسیم پر ووٹ شماری کی روایت پہلے ہی قائم ہوچکی ہے۔

حلقہ بندی کی نئی رپورٹ میں جموں سے منسلک دو اضلاع راجوری اور پونچھ کو کشمیر کے اننت ناگ پارلیمانی سیٹ سے جوڑا گیا ہے اور اس کا نام تبدیل کرکے کشتوارڈ راجوری رکھا گیا ہے جس کے پیچھے بظاہر یہی حکمت عملی نظر آرہی ہے کہ جنوبی کشمیر کی پارلیمانی سیٹ کا انحصار اننت ناگ کی بجائے جموں کے اضلاع پر رہے گا جس سے کشمیر کی افادیت خود بخود ختم ہوجائے گی۔

حکومت بھارت اس رپورٹ کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی تاکہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل جموں و کشمیر میں انتخابات کروا کے اندرونی ملک یہ تاثر قائم کیا جاسکے کہ بی جے پی نے نہ صرف کشمیر کی آزادی کی تحریک کو دفن کردیا بلکہ ہندووتوا کو تخت پر بٹھا کر کشمیر کو واپس مہاراجہ دور میں پہنچا دیا جب کشمیری مسلمان بے یارو مددگار اور بے اختیار ہوا کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی برادری کو بھی رپورٹ کے بعد انتخابات کروانے سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ خطے میں ’اسلامی دہشت گردی‘ کو ختم کرکے جمہوریت کا مان رکھا گیا ہے اور عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنی حکومت بنا کر بھارت کی جمہوریت پر دوبارہ اعتماد جتایا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی واحد جماعت ہے کہ جس نے حلقہ بندی کی اس رپورٹ کی تعریف کرتے ہوئے دہرایا کہ وہ جموں و کشمیر میں نئی حکومت بنائی گی جبکہ نیشنل کانفرنس اور دوسری جماعتوں نے اس عمل کو بی جے پی کی توسیع پسند پالیسی سے تعبیر کیا ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ عام کشمیریوں کی توجہ رپورٹ پر اتنی نہیں جتنی اس بات پر ہے کہ کیا جموں و کشمیر کا ابھی کوئی محکمہ بچا ہے جہاں کوئی کشمیری مسلمان سربراہ ہے؟

1931 میں مہاراجہ دور کے خلاف تحریک شروع ہونے کا پہلا مقصد یہی تھا کہ مقامی حکومت اور انتظامیہ میں کشمیری مسلمان صفر کے برابر ہیں اور اُنہیں اکثریت کے ناطے انتظامی امور میں مناسب نمائندگی ملنی چاہیے جس کو بعد میں برصغیر میں سامراجی طاقت کے خلاف ہندوستان پاکستان کی آزادی کی تحریک کے ساتھ جوڑا گیا۔ واحد مقصد جموں و کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کو ختم کرنا تھا جس میں کانگریس کے رہنما کامیاب ہوگئے۔

آج کشمیری عوام خاموشی سے اُس جمہوریت کا تماشا دیکھ رہے ہیں جو دن دہاڑے باہر کے لوگوں کو کشمیر پر مسلط کرکے عوام کُش پالیسی سے اُنہیں اپنے گھر، جائیداد، روزگار اور شہریت سے بے دخل کر رہی ہے۔

جو دوسرا ملک اس خطے کو اپنی شہہ رگ سمجھتا ہے وہ آج کل نہ صرف پوری دنیا میں مذاق بنا ہوا ہے بلکہ خود سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کشمیر بیچنے کا الزام بھی عائد کر تی رہیں ہیں۔

بقول ایک کشمیری دانشور ’جتنی زیادتی ہندوستان نے کشمیریوں کے ساتھ کی اُس سے کئی گنا زیادہ پاکستان نے کشمیریوں کو پامال کیا ہے۔‘

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ