سیاسی عدم استحکام: کیا پاکستان ہائبرڈ وار کا شکار ہو چکا ہے؟

اکثر ماہرین موجودہ پاکستان کو ہائبرڈ وار فیئر کا شکار سمجھتے ہیں، وہیں چند دوسرے تجزیہ کار دور حاضر کے پاکستان کے مسائل کو ریاست، ریاستی اداروں، سویلین حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی ’غلطیوں کا نتیجہ‘ گردانتے ہیں۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں گذشتہ دو ماہ کے دوران وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد، حکومت کی تبدیلی، اداروں پر تنقید، شدید معاشی بحران، جلسے جلوس اور سیاسی مخالفین کا مسلسل ایک دوسرے سے الجھنا سمیت اتنا کچھ چل رہا ہے کہ اب یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ کیا دور حاضر کا پاکستان واقعی کسی ہائبرڈ وار کا شکار ہوچکا ہے؟

اس سوال کا جواب بیشتر ماہرین اثبات میں دیتے ہیں جبکہ ملک کے خلاف اس نرالی جنگ کی موجودگی کا انکار کرنے والے بھی کئی موجود ہیں۔

اسلام آباد میں تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے سربراہ امتیاز گل اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ شدید سیاسی کشمکش، سنگین معاشی بحران اور سر اٹھاتے سکیورٹی چیلنجز سے دوچار پاکستان ’ہائبرڈ وار‘ کے نتائج کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

امتیاز گل لکھتے ہیں کہ پاکستان میں کئی لوگ اس کے ریاستی اداروں کو اپنے ہی ملک کی منفی تصویر اور اندرونی سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ایک دوسرے ٹھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) سے منسلک محقق محمد علی بیگ کہتے ہیں کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس بحث میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد علی بیگ نے کہا کہ بیشتر تھینک ٹینکس میں اس موضوع پر مباحثوں کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ نجی محفلوں میں بھی یہ سوال کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کسی قسم کی ہائبرڈ وار کا شکار ہے یا نہیں؟ اس کا جواب جاننے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہائبرڈ وار یا ہائبرڈ جنگ ہے کیا؟

ہائبرڈ وار کیا ہے؟

ہائبرڈ وار یا ہائبرڈ وار فیئر (مخلوط جنگ) فوجی حکمت عملی (ملٹری سٹریٹیجی) کا ایک نظریہ ہے، جس کا سب سے پہلے ذکر امریکی فوجی اور دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر فرینک ہافمین نے کیا تھا۔

ہائبرڈ وار فیئر میں بنیادی طور پر سیاسی جنگ کو استعمال کرتے ہوئے، روایتی جنگ، بے قاعدہ جنگ اور سائبر وار فیئر کو دوسرے طریقوں مثلا جعلی خبروں، سفارت کاری، قانون سازی اور غیر ملکی انتخابی مداخلت کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔

ہائبرڈ وار فیئر میں حملہ آور اپنی کارروائیوں کو تخریبی کوششوں کے ساتھ جوڑتا ہے اور اپنی شناخت خفیہ رکھنے اور انتقامی کارروائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔

بیلجیئم میں واقع یورپی فارن پالیسی پر کام کرنے والے تھینک ٹینک کارنیگی یورپ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ہائبرڈ جنگ میں مختلف قسم کی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں، اور اس میں فیصلہ سازی پر اثرانداز ہو کر معاشرے کو غیرمستحکم کرنے کے لیے مختلف آلات کا استعمال کیا جاتا ہے، جن میں انتخابی عمل میں مداخلت، ڈس انفارمیشن یا جھوٹی خبریں، سائبر حملے، ڈرون حملے، اور مالی اثر و رسوخ سب سے زیادہ استعمال ہونے والے حربے ہوتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود نے ہائبرڈ وار فیئر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قسم کی جنگ میں معاشرے میں کنفیوژن پیدا کی جاتی ہے اور سیاسی رہنماؤں کو آپس میں لڑاتے ہوئے ایک جھوٹا ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جنرل طلعت نے کہا کہ ’آپ جو سن اور دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ سب غلط ہوتا ہے اور اس کے سچے ہونے کا عوام کو یقین دلایا جاتا ہے۔‘

پاکستان ہائبرڈ وار فیئر کا شکار ہے؟

اکثر تجزیہ کاروں اور مبصرین کے خیال میں دور حاضر کا پاکستان شدید قسم کی ہائبرڈ وار فیئر کا شکار ہے جو معاشرے اور ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اکتوبر 2020 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب میں کہا تھا کہ ’پاکستان کے دشمن اپنے عزائم میں ناکام ہونے کے بعد دل شکستہ ہیں اور مایوسی میں پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار شروع کر چکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس ہائبرڈ وار کا ہدف عوام ہیں اور میدان جنگ انسانی ذہن ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان مخالف ہائبرڈ وار میں قومی قیادت ہر سطح پر ہدف ہے اور اس ہائبرڈ وار کا مقصد پاکستان میں اس امید کی فضا کو نقصان پہنچانا ہے اور اس مفروضے کو تقویت دینا ہے کہ یہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہو سکتا۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز سے منسلک ڈاکٹر ظفر نواز جسپال ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے خطرات کا سامنا ہے اور اس کے مخالفین روایتی جنگ کی انتہا کی نچلی سطح پر کام کر رہے ہیں۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’(پاکستان کے مخالفین) فوجی اور نیم فوجی ٹولز کے امتزاج کے ساتھ، پراکسی فورسز، جیسے بنیاد پرست، عسکریت پسند اور نسلی علیحدگی پسند، سائبر آلات اور معلوماتی آپریشنز کو دباؤ ڈالنے کے لیے اور اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال لکھتے ہیں کہ پاکستان مخالف قوتیں معاشرے کے مذہبی اور نسلی انتشار کا فائدہ اٹھانے کے لیے بدنیتی پر مبنی پروپیگینڈے کا استعمال کر رہے ہیں، اور ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بنیاد پرست عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا کہنا تھا کہ بند آنکھوں سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ہائبرڈ وار فیئر کا شکار ہے۔

تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹیجیک اینڈ کنٹیمپرری ریسرچ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں سجاد احمد لکھتے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسند حملوں میں ہزاروں بےگناہوں کی ہلاکتیں ان کے عزیز و اقارب کو مشتعل کرتے اور نفرت کو جنم دیتے ہیں۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’متاثرین کے خاندانوں اور عام لوگوں میں ریاست مخالف جذبات اور نفرت کو ہوا دی گئی ہے جو یا تو اپنی ہی ریاست پر پراکسیوں کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں یا حکومت کو ایسی خوفناک سرگرمیوں کو نہ روکنے پر ملامت کرتے ہیں۔ اس طرح کچھ بلوچوں، پشتونوں اور سندھیوں کے اندر اداروں اور ریاست کے خلاف نفرت کو ہوا دی جا رہی ہے۔‘

امتیاز گل سمجھتے ہیں کہ موجودہ وقت کا پاکستان کے ہائبرڈ وار فیئر کا شکار ہونے کا ایک بڑا مظہر اس کا بے انتہا پھیلا ہوا سکیورٹی نظام ہے، جو خصوصاً شمال مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں پراکسی دہشت گردوں کا سامنا کر رہا ہے۔

جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ’اس میں شک کی بات ہی نہیں کہ پاکستان گذشتہ طویل عرصے سے ہائبرڈ وار کا شکار ہے اور موجودہ دور میں اس کی شدت میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘

ہائبرڈ وار فیئر کے پیچھے کون ہے؟

پاکستان کو ہائبرڈ وار فیئر کا شکار تسلیم کرنے والے تجزیہ کار اس کا پہلا اور سب سے بڑا ذمہ دار پڑوسی ملک بھارت کو سمجھتے ہیں۔

جنرل (ر) طلعت مسعود کے خیال میں بھارت ہی پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگینڈا پھیلا رہا ہے، جو اس کی اسلام آباد مخالف ہائبرڈ وار فیئر کا حصہ ہے۔

’وہ ہمارے معاشرے سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں تاکہ عوام میں ریاست مخالف جذبات کو ہوا دی جا سکے۔‘

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کی روایتی جنگی تیاری اور ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کے بعد بھارت غیر فوجی ہتھیاروں پر زور دیتے ہوئے ہائبرڈ وارفیئر کے وسیع پیمانے پر تخریبی آلات استعمال کر رہا ہے۔

’اس سلسلے میں بھارت پاکستان میں اندرونی نسلی، فرقہ وارانہ، سماجی، ثقافتی اور معاشی فالٹ لائنوں کا استحصال کر کے غیر متناسب جنگ کو بھڑکانے کی سازشیں کر رہا ہے۔‘ 

انہوں نے اس سلسلے میں دسمبر 2006 میں بھارتی آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ کی پیش کردہ ’ڈاکٹرین فار سب کنونشنل آپریشنز‘ کا بھی ذکر کیا۔

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کے مطابق ’نئی دہلی پاکستان کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے سائبر، انفارمیشن وارفیئر، سرپرائز، فریب اور پراکسی فورسز کے وسیع استعمال جیسے غیر منسوب ذرائع کا استعمال کرنے میں مصروف ہے۔‘

سجاد احمد کے مطابق پاکستان کو ’غیر مستحکم‘ کرنے لیے نئی دہلی نے 2014 میں ڈوول کا نظریہ (Doval’s Offensive-Defensive Doctrine) متعارف کرایا اور بھارت کا مقصد واضح طور پر پاکستان کو مختلف خفیہ اقدامات جیسے دہشت گردی یا پراکسیز کو ذخیرہ کرنے، سائبر حملوں اور تخریب کاری، معلوماتی آپریشنز (جعلی خبروں کی مہم، پالیسی اور خبروں کے مضامین کو پروپیگینڈے اور ہیرا پھیری کے لیے استعمال کرنا) کے ذریعے نقصان پہنچانا اور حتیٰ کہ معاشی دباؤ ڈالنا معلوم ہوتا ہے۔

بعض مبصرین امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کو بھی پاکستان کے خلاف اس ’نرالی جنگ‘ میں ملوث سمجھتے ہیں۔

جنرل (ر) طلعت مسعود کے خیال میں ’امریکہ نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا‘ اور ایسا سب کچھ ہائبرڈ وار فیئر کے ذریعے ہی کیا گیا۔

’یہ سب اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے‘

جہاں اکثر ماہرین موجودہ پاکستان کو ہائبرڈ وار فیئر کا شکار سمجھتے ہیں، وہیں چند دوسرے تجزیہ کار دور حاضر کے پاکستان کے مسائل کو ریاست، ریاستی اداروں، سویلین حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی ’غلطیوں کا نتیجہ‘ گردانتے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ہائبرڈ وار فیئر کی نصابی کتب میں تعریف موجود نہیں ہے بلکہ یہ آمروں کی اخترا کردہ اصطلاحات ہیں، جن کے تحت ان کے منظور شدہ بیانیے سے ہٹ کر ہر چیز کو ہائبرڈ وار بنا دیا جاتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کسی صحافی کی خبر کو جھوٹ یا سچ صرف وقت ثابت کرسکتا ہے نہ کہ ریاست یا حکومتی اہلکار۔

معاشی ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر ملک کے خلاف ہائبرڈ وار ہو رہی ہے اور اس کی وجہ اپنی غلطیاں ہی ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہائبرڈ وار فیئر کا مطلب کسی معاشرے میں دراڑیں پیدا کرنا نہیں بلکہ پہلے سے موجود دراڑوں کو بڑا کرنا ہوتا ہے۔

’ہم نے خود اپنے معاشرے میں آگ کا سامان پیدا کیا اور اب دوسرے ہائبرڈ وار کے ذریعے اسے ہوا دے رہے ہیں، غلطی ہماری ہی ہے، نہ کہ دوسروں کی۔‘

وجاہت مسعود کے خیال میں موجودہ وقت میں پاکستان کے حالات کی ذمہ دار سال 2014 سے 2018 کے درمیان کی جانے والی ریاستی غلطیاں ہیں۔ 

’ہم نے حکومتی کاموں میں دستور پاکستان سے بالا جا کر مداخلت کی اور پاکستان پر ہائبرڈ رجیم مسلط کی، افغانستان کے لیے خراب پالیسی ترتیب دی اور معیشت کو بھی تباہ کیا۔‘

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار کی موجودگی کا اعتراف کرنے کے باوجود ریاست کی غلطیوں کو اس کی شدت میں اضافے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لاپتہ افراد کا مسئلہ، پی ٹی ایم جیسی تنظیموں کو غدار قرار دینا، معاشی بدحالی اور سیاسی بحران ہائبرڈ وار کی نہ صرف وجہ بنتے ہیں، بلکہ اس کی شدت میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی پاکستانی ادارے کا ہائبرڈ وار فیئر میں ملوث ہونے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم اداروں میں موجود نااہلی ایک خلا پیدا کرتی ہے جسے مخالفین ہائبرڈ وار کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’ہمارے ہاں سینیئر پوزیشنز پر ریٹائرڈ  فوجی اہلکاروں کو لگا دیا جاتا ہے، جس کا واحد نتیجہ سٹیٹس کو کی شکل میں سامنے آتا ہے۔‘

حل کیا ہے؟

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال معاشرے میں قانون کی حکمرانی کو ہائبرڈ وار کے خلاف سب سے بہتر ہتھیار قرار دیتے ہیں۔

’کسی معاشرے میں قانون کی حکمرانی پر جتنی سختی سے عمل ہو گا، ہائبرڈ وار کے تحت چلنے والے عوامل پر اتنی ہی شدت سے ضرب لگانا ممکن ہو سکے گا۔‘

انہوں نے پاکستانی معاشرے میں تعلیم کے فروغ پر بھی زور دیا جبکہ پائیدار ترقی کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال پاکستانی معاشرے میں جھوٹی خبروں کے ذریعے ڈس انفارمیشن کو روکنے کی خاطر پیمرا کو مزید فعال بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔

سجاد احمد اپنے مضمون میں حکومت پاکستان کو سابق فاٹا اور بلوچستان جیسے پسماندہ اور تصادم زدہ علاقوں میں رہنے والوں کے دل و دماغ جیتنے، انہیں بہتر معاش کے لیے بنیادی سہولیات اور انسانی حقوق فراہم کرنے کی تجویز دیتے ہیں، تاکہ بحران سے متاثرہ یہ لوگ ناجائز ذرائع اختیار نہ کریں۔ 

پاکستان مخالف ہائبرڈ وار کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں امتیاز گل کہتے ہیں کہ ’وقت آ گیا ہے کہ پیسہ کمانے والے عوامی طرز حکمرانی کے ماڈل کا جائزہ لیا جائے اور ہنگامہ خیز لیکن مالی طور پر دبنگ سکیورٹی آپریٹس کو معقول بنایا جائے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو ریاست ایک خطرناک ناقابل تلافی صورت حال میں ڈوب سکتی ہے۔‘

پاکستان کو ہائبرڈ وار کا سامنا ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے قطعہ نظر موجودہ دور میں پاکستان کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو ملک میں موجود بے ہنگم معاشی بحران، سیاسی کشمکش اور سکیورٹی چیلنجز کا حل تلاش کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں ریاستی اداروں کی لیڈرشپ، سیاسی و مذہبی جماعتوں، رہنماؤں اور سول سوسائٹی کو سنجدگی سے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ بعض سیاست دان اور تجزنگار کسی قومی مفاہمت یا مشاورت کی تجویز بھی دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان