’بھائی کو نجی جہاز میں دبئی سے کراچی لا کر اسلحے کا کیس بنایا گیا‘

بلوچستان کے ضلع خضدار کے نواحی گاؤں زہری سے تعلق رکھنے والی فاطمہ زہری کا دعویٰ ہے کہ دبئی کے رہائشی ان کے بھائی عبدالحفیظ زہری کو 27 جنوری 2022 کو کچھ لوگ اپنے ساتھ لے گئے تھے اور اب کراچی سے ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔

38 سالہ عبدالحفیظ زہری آٹھ بچوں کے والد اور دبئی میں مقیم تھے (فوٹو: فاطمہ زہری)

کراچی میں مقیم بلوچستان کے ضلع خضدار کے نواحی گاؤں زہری سے تعلق رکھنے والی فاطمہ زہری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی عبدالحفیظ زہری کو بغیر پاسپورٹ کے نجی جہاز میں دبئی سے کراچی لاکر لاپتہ کردیا گیا اور پھر اسحلہ رکھنے کے کیس میں گرفتاری ظاہر کرکے جیل بھیج دیا گیا۔

38 سالہ عبدالحفیظ زہری آٹھ بچوں کے والد اور دبئی میں مقیم تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فاطمہ زہری نے بتایا: ’میرے چھوٹے بھائی عبدالحفیظ زہری دبئی انٹرنیشنل سٹی میں رہتے ہیں اور وہاں عمارت سازی (کنسٹرکشن) کے سامان کی کمپنی چلاتے ہیں۔ انہیں ان کی رہائشی عمارت کی پارکنگ سے 27 جنوری 2022 کی رات کو 12 بجے کچھ لوگ اپنے ساتھ لے گئے۔‘

بقول فاطمہ: ’میرے بھائی کی اہلیہ نے دبئی پولیس کے پاس ان کی گمشدگی کا مقدمہ بھی درج کروایا۔ بھائی کی گمشدگی کے بعد مختلف لوگ ٹیلی فون کرکے گھر والوں سے ان کا پاسپورٹ مانگ رہے تھے کہ وہ لوگ بھائی کو پاکستان ڈی پورٹ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے پاسپورٹ دیں، مگر انہوں نے پاسپورٹ نہیں دیا۔‘

مزید پڑھیے: سویڈن میں لاپتہ بلوچ صحافی کی موت: خود کشی، حادثہ یا قتل؟

’میرے بھائی کا پاسپورٹ ابھی تک ان کے بچوں کے پاس موجود ہے۔ بھائی کی گمشدگی کے چھ دن بعد انہیں بغیر پاسپورٹ ایک نجی جہاز میں دبئی سے کراچی لایا گیا۔ ان کی کراچی آمد کی ہمیں اطلاع بھی ملی، مگر پھر وہ دوبارہ کراچی سے لاپتہ ہوگئے۔ جس کے تقریباً تین مہینے تک وہ نہیں آئے تو احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے سندھ ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے پٹیشن دائر کی۔‘

فاطمہ زہری کے مطابق: ’جب عدالت نے پٹیشن پر پیشی بلائی تو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے یہ کہتے ہوئے بھائی کی گرفتاری ظاہر کی کہ انہوں نے بھائی کو کراچی کے مبارک شہید روڈ سے اسحلے سمیت گرفتار کیا ہے اور ان پر سندھ آرمز ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے کراچی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا ہے۔‘

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے سی ٹی ڈی حکام کا موقف جاننے کے لیے انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب سے ان کے ٹیلی فون پر رابطہ کیا گیا، مگر ان سے بات نہیں ہوسکی۔

جس کے بعد ان کے وٹس ایپ نمبر پر اس کیس کے متعلق موقف پوچھا گیا، مگر اس خبر کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔

فاطمہ زہری کے مطابق: ’جب سی ٹی ڈی نے بھائی کی گرفتاری ظاہر کی تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ گرفتار ہیں مگر زندہ تو ہیں، کسی تشدد مرکز میں نہیں ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ میرے بھائی کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔‘

فاطمہ نے مزید بتایا کہ 2010 میں ان کے 14 سالہ بھائی عبدالمجید زہری لاپتہ ہوگئے تھے اور چھ دن بعد ان کی تشدد زہ لاش ملی تھی۔ انہیں شدید تشدد کرنے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

بقول فاطمہ: ’اس کے کچھ عرصے بعد میرے والد حاجی محمد رمضان زہری کسی کام سے اپنی زرعی زمین کی طرف جارہے تھے تو کسی نے فائرنگ کرکے انہیں قتل کردیا۔ اب بھائی کو دبئی سے لاپتہ کردیا گیا اور ظاہر کیا بھی تو انہیں قید میں رکھا گیا ہے۔‘

فاطمہ زہری کے دعوے کے حوالے سے موقف جاننے کے لیے بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم سے رابطہ کیا گیا، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ 

دوسری جانب فاطمہ زہری کی جانب سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے دائر پٹیشن پر سندھ حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ 

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پٹیشن کے بعد سندھ حکومت نے اس معاملے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اگر عبدالحفیظ زہری بے قصور ہیں تو انہیں قانون کے مطابق انصاف دلایا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان