پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا میں دریا چناب کے بڑھتے دباؤ کے باعث پیر کو اوچ شریف روڈ پر وہاڑی پل کھول کر پانی کا دباؤ کم کیا گیا جس سے 51 دیہات زیر آب آئے۔ ریسکیو آپریشن جاری ہے اور متاثرہ لوگوں کو بچا لیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ بند توڑے گئے، حقیقت میں صرف وہاڑی پل کھولا گیا تاکہ شہر کو بچایا جا سکے۔ سوائے دو روز قبل جلال پور پیر والا میں کشتی الٹنے کے واقعے کے جس میں چار بچوں سمیت پانچ افراد ڈوبے تھے، کوئی اور ناگہانی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔'
ان کے مطابق ریسکیو آپریشن جاری ہے اور فضائی نگرانی اور ریسکیو کے لیے تین ہیلی کاپٹرز بھی استعمال ہو رہے ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 26 جون سے ملک بھر میں جاری شدید بارشوں، انڈیا کی جانب سے چھوڑے گئے پانی اور سیلاب کی وجہ سے اب تک 910 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ ایک ہزار 44 زخمی ہیں۔
جان سے جانے والوں کی سب سے زیادہ تعداد کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے جہاں 504 افراد لقمہ اجل بنے، دوسرے نمبر پر زیادہ اموات صوبہ پنجاب میں 239 ہوئیں۔ سندھ اور بلوچستان میں اب تک 58 اور 26 افراد بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے جان سے گئے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں 38 اور 41 افراد جان سے گئے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان مظہر حسین نے بتایا کہ ’جلال پور پیر والا کو بچانے کے لیے اوچ شریف روڈ پر کافی عرصہ سے بند وہاڑی پل کھول دیا گیا اور سیلاب کا رخ دیہاتوں کی طرف موڑ دیا گیا جس میں موضع جات بہادر پور، صبرا، کنہوں اور دیگر شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان کا کہنا تھا کہ وہاڑی پل کھولنے کے بعد پانی کے دباؤ میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے شہر کافی حد تک محفوظ ہو گیا ہے لیکن اب بھی 12 سے 24 گھنٹے انتہائی اہم ہیں۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان فاروق احمد نے کہا کہ ’ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا جبکہ ملتان میں مجموعی طور پر تین لاکھ سے زائد افراد اور مویشیوں کا ایڈوانس انخلا مکمل ہو چکا ہے۔‘
ان کے مطابق جلال پور پیر والامیں ریسکیو آپریشنز کو تھرمل امیجنگ ڈرونز کے ذریعے مانیٹر کیا جا رہا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب کے دریاؤں میں طغیانی کی صورت حال برقرار ہے اور نو ستمبر تک دریائے راوی، ستلج اور چناب میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔
ریسکیو ہیڈ کوارٹرز نے عوام سے اپیل کی ہے کہ مظفر گڑھ اور علی پور جتوئی کے شہری ایڈوانس انخلاء میں تعاون کریں اور سیلابی علاقے خالی کر دیں۔
ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے پنجاب عرفان علی کاٹھیا نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ملتان سے ٹیلی فونک رابطے میں شہریوں کے انخلاء کو یقینی بنانے کی ہدایت دی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق فضائی ریسکیو آپریشن کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ہیلی کاپٹر فراہم کر دیے گئے ہیں، جب کہ فوج، پولیس، ریسکیو اور سول ڈیفنس سمیت تمام ادارے الرٹ ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق ڈی جی عرفان علی کاٹھیا جلال پور پیروالا کے لیے روانہ ہو گئے ہیں تاکہ ریسکیو آپریشن کو براہِ راست مانیٹر کیا جا سکے۔
شہریوں کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے مساجد میں اعلانات بھی کروائے جا رہے ہیں، جب کہ ایمرجنسی کے لیے موبائل نمبرز بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق اوچ شریف روڈ پر واقع وہاڑی پل، جو طویل عرصے سے بند تھا، کھول دیا گیا ہے۔
اس اقدام سے شہر کو بڑے پیمانے پر نقصان سے بچا لیا گیا اور پانی کا دباؤ موضع بہادر پور، صبرا اور کنہوں کی سمت موڑ دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شہر اب بڑی حد تک محفوظ ہے، تاہم اگلے 12 سے 24 گھنٹے صورت حال کے حوالے سے نہایت اہم ہیں۔
بارشوں کی پیشن گوئی
پی ڈی ایم اے نے آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب کے بیشتر اضلاع میں مزید طوفانی بارشوں کی پیشنگوئی کی ہے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق مون سون بارشوں کا 10واں سپیل 9 ستمبر تک جاری رہے گا، جب کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، جہلم، گوجرانولہ، لاہور، گجرات، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، منڈی بہاوالدین، اوکاڑہ، ساہیوال، قصور، جھنگ، سرگودھا اور میانوالی میں بارشوں کا امکان ہے۔
اسی طرح ڈیرہ غازی خان، ملتان اور راجن پور میں بھی بارشوں کی توقع کی جا رہی ہے، نو ستمبر تک ڈیرہ غازی خان رودکوہیوں میں فلیش فلڈنگ کا خدشہ ہے۔
خواتین
پنجاب حکومت نے صوبے میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں خواتین اور بچوں کی صحت کی دیکھ بحال کے مربوط پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں میسر کی جا رہی ہیں۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس پنجاب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 968 کلینک آن وہیل اور میڈیکل ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
اسی طرح خواتین اور بچوں کے علاج معالجہ کے لیے خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں، جب کہ حاملہ خواتین کے چیک اپ کے لئے ڈاکٹر اور عملہ دستیاب کیا جا رہا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ خواتین کے لیے ملٹی ویٹامن، سینٹری کٹس اور دیگر ضروری سامان ہر فلڈ کیمپ میں مہیا کیے جا رہے ہیں، جب کہ حاملہ خواتین کو بروقت مریم نواز ہیلتھ یا ہسپتالوں میں پہنچانے کے لیے ہمہ وقت رورل ایمبولینس سروس بھی میسر ہو گی۔
بیان کے مطابق: بچوں کے علاج کے لیے روزانہ ہر کیمپ میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز وزٹ کر رہے ہیں، جب کہ فلڈ ریلیف کیمپوں میں نومولود بچوں کی روٹین ویکسینیشن کے خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کے بیان میں بتایا گیا کہ فلڈ ریلیف کیمپوں میں کیڑوں کے کاٹنے، سکن انفکشن، پیٹ کی بیماریوں ہیضہ اور ملیریا کے علاج کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں، جب کہ او آر ایس، اینٹی بائیوٹک اور دیگر ضروری ادویات کی کافی مقدار میں موجود ہیں۔
سندھ
پاکستان میں سیلابی ریلے صوبہ پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد صوبہ سندھ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ صوبے کے نہری نظام میں شدید طغیانی نو ستمبر کو متوقع ہے۔
اتوار کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آٹھ لاکھ کیوسک پانی کے بہاؤ کے پیش نظر منصوبہ بندی کر لی ہے اور یہ طغیانی گڈو بیراج پر نو ستمبر کو پہنچنے کا امکان ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ممکنہ متاثرہ علاقوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے اور لوگ اپنی مرضی سے وہاں سے منتقل بھی ہو رہے ہیں۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ سندھ میں متوقع شدید بارشوں کے پیش نظر تمام ادارے ہمہ وقت الرٹ رہیں تاکہ ممکنہ سیلابی صورتحال سے بروقت نمٹا جا سکے۔
ایوان صدر سے جاری بیان میں انہوں نے ہدایت کی کہ صوبائی، ضلعی اور بلدیاتی ادارے پیشگی اقدامات یقینی بنائیں، خصوصاً شہری علاقوں، نشیبی مقامات اور ساحلی علاقوں میں انتظامات مکمل رکھے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حب ڈیم سمیت دیگر آبی ذخائر میں پانی کی سطح پر مسلسل نظر رکھی جائے۔ عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور حکومتی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔
صدر زرداری نے مزید کہا کہ عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے تمام انتظامات مکمل رکھے جائیں اور ضلعی و تحصیل سطح پر ریلیف مشینری اور عملہ مستعد رہے۔