وکلا التوا کی درخواستوں کی روش روکیں تاکہ مقدمات کا بوجھ کم ہو: چیف جسٹس

نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ گذشتہ سال سپریم کورٹ میں 60,635 مقدمات زیر التوا تھے جن کی تعداد کم ہو کر 56,943 رہ گئی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی پیر کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت میں عدالت عالیہ کے نئے عدالتی سال کے آغاز پر تمام ججوں کی موجودگی میں خصوصی کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں (پی ٹی وی سکرین گریب)

سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے پیر کو کہا کہ وکلا مقدمات کے التوا کی درخواستوں کی روش کو ترک کریں تاکہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے بوجھ میں کمی لا جا سکے۔

اگست کی سالانہ تعطیلات کے بعد ستمبر سے سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کا آغاز ہوتا ہے اور اس موقع پر چیف جسٹس تمام ججوں کی موجودگی میں ایک خصوصی کانفرنس سے خطاب کرتے ہیں جس میں نہ صرف گذشتہ عدالتی سال کے دوران ہونے والی پیش رفت اور چیلنجز کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے بلکہ نئے سال میں بہتری سے متعلق لائحہ عمل کا خاکہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ عدالی سال کے دوران مقدمات کے التوا کے لیے دی گئی درخواستوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔

’وکلا کی جانب سے التوا کی درخواستوں کی تعداد۔ تعداد 25-2024 کے مقابلے میں میں تیزی سے بڑھ کر 56,449 تک پہنچ گئی، جو پچھلے سال 22,425 تھی۔ مجھے آپ سب کو یاد دلانا ہے کہ بار انصاف کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ التوا کی بڑھتی ہوئی روش کو روکنے میں مدد کریں، تاکہ زیر التواء مقدمات میں مشکل سے حاصل کی گئی کمی نہ صرف برقرار رکھی جا سکے بلکہ مزید مستحکم بھی ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ سال 8 ستمبر 2024 کو عدالت عظمیٰ میں 60,635 مقدمات زیر التواء تھے، جبکہ اس سال 7 ستمبر 2025 تک یہ تعداد کم ہو کر 56,943 رہ گئی ہے۔‘

چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر بڑے آئینی بنچز کی طویل سماعتوں میں جج صاحبان مصروف نہ رہتے تو زیر التواء مقدمات مزید کم ہو سکتے تھے۔

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس نے کہا اس موقع کو محض ایک رسمی تقریب نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ دن ہمارے لیے جائزہ لینے اور آئندہ کے لیے نئی ترجیحات طے کرنے کا لمحہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ شفافیت، جوابدہی اور کرپشن فری ماحول کسی بھی عدالتی نظام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ’اسی مقصد کے لیے ایک اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کی گئی ہے، جہاں شہری بلا خوف شکایات درج کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ پہلی بار عدالت کے مالیاتی امور کا آڈٹ آڈیٹر جنرل کی ٹیم سے کرایا گیا ہے اور سامنے آنے والے مسائل پر فوری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

’ڈیجیٹل کیس فائلنگ، ای-کاپیز، ای-افیڈیویٹس اور آن لائن سماعتوں جیسے اقدامات پہلے ہی عدالت کے کام کے طریقہ کار کو بدل رہے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے خصوصی ’اوورسیز لٹیگنٹس فیسلیٹیشن سیل‘ قائم کیا گیا ہے، جبکہ میڈیا کے لیے بھی علیحدہ پلیٹ فارم شروع کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ترقی کا یہ سفر جاری رکھنا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان