بائیڈن کا چین کے مقابلے پر انڈو پیسفک تجارتی نیٹ ورک کا اعلان

امریکی صدر نے ایک نئے انڈو پیسفک تجارتی نیٹ ورک کے آغاز کا اعلان کیا ہے، جس میں ابتدائی طور پر بھارت اور جاپان سمیت 13 ممالک شامل ہیں، تاہم اس معاہدے کے موثر ہونے کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

جاپان کے وزیراعظم فومیو کیشیدا (بائیں)، امریکی صدر جو بائیڈن (درمیان) اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی (دائیں) 23 مئی 2022 کو جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایزومی گارڈن گیلری میں انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک برائے خوشحالی میں شریک ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو ٹوکیو میں ایک نئے انڈو پیسفک تجارتی نیٹ ورک کے آغاز کا اعلان کیا ہے، جس میں ابتدائی طور پر بھارت اور جاپان سمیت 13 ممالک شامل ہیں، تاہم اس معاہدے کے موثر ہونے کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

امریکی صدر ان دنوں ٹوکیو میں موجود ہیں، جہاں وہ کواڈ ممالک کے گروپ میں شامل جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جوبائیڈن نے پیر کو ٹوکیو میں ایک خطاب میں کہا: ’امریکہ اور جاپان 11 دیگر ممالک کے ساتھ مل کر انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک کا آغاز کریں گے۔‘

بقول جو بائیڈن: ’یہ فریم ورک خطے میں ہمارے قریبی دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ، 21 ویں میں اقتصادی مسابقت کو یقینی بنانے کے لیے درپیش اہم چیلنجز کے خلاف کام کرنے کا عزم ہے۔‘

انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک کا آغاز ایک وسیع منصوبہ ہے، جو ایشیائی ممالک کے ساتھ کے کام کرنے کے لیے امریکہ کو ایک اقتصادی ستون فراہم کرتا ہے۔

آئی پی ای ایف نامی اس اتحاد کا مقصد امریکی اتحادیوں کو ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی کردار کا متبادل فراہم کرنا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا سے ملاقات میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ نیا انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک خطے میں دیگر اقوام کے ساتھ امریکی تعاون میں بھی اضافہ کرے گا۔

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ فریم ورک ریاست ہائے متحدہ اور ایشیائی معیشتوں کو سپلائی چین، ڈیجیٹل تجارت، صاف توانائی، کارکنوں کے تحفظ اور انسداد بدعنوانی کی کوششوں سمیت مسائل پر زیادہ قریب سے کام کرنے میں مدد کرے گا۔

اس حوالے سے ابھی رکن ممالک کے درمیان بات چیت کی ضرورت ہے اور انتظامیہ کے لیے یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ معاہدہ عالمی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکیوں اور کاروباری اداروں کی مدد کے وعدے کو کیسے پورا کرے گا۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں جاپان کی شمولیت؟

جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن ’اصلاحات کے بعد‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شامل ہونے کی جاپان کی کوشش کی حمایت کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ بیان پیر کو ٹوکیو میں جو بائیڈن اور فومیو کیشیدا کی ون آن ون ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں سامنے آیا۔

اگر اقوام متحدہ کی طرف سے منظوری دے دی جاتی ہے تو جاپان، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے ساتھ مستقل رکن کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن بن جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اگلے سال جاپانی وزیراعظم کیشیدا کے آبائی شہر ہیروشیما میں منعقد ہونے والے گروپ آف سیون کے سربراہی اجلاس کے لیے بھی آشیر باد دی۔

تائیوان کا دفاع: ’طاقت کے استعمال کے لیے تیار ہیں‘

امریکی صدر جو بائیڈن نے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور اس کے تائیوان پر حملہ کرنے کے امکان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن تائیوان کے دفاع کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہوگا۔

واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کی کشیدگی میں سب سے بڑا اور حساس معاملہ تائیوان ہی ہے۔

مزید پڑھیے: تائیوان: امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کا نیا محاذ

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو ٹوکیو میں ایک صحافی نے صدر جوبائیڈن سے پوچھا کہ ’اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو کیا امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا؟‘ جس پر امریکی صدر نے جواب دیا: ’جی ہاں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ وہ عہد ہے جو ہم نے کیا ہے۔۔ ہم ون چائنا پالیسی سے متفق ہیں۔ ہم نے اس پر دستخط کیے ہیں اور وہاں سے کیے گئے تمام مطلوبہ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ لیکن یہ خیال کہ اسے (تائیوان کو) محض طاقت کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ مناسب نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس کی توقع تھی کہ ایسا واقعہ رونما نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی کوشش کی جائے گی۔

اگرچہ واشنگٹن قانون کے مطابق تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے وسائل فراہم کرنے کا پابند ہے، لیکن اس نے طویل عرصے سے ’سٹریٹیجک ابہام‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے کہ آیا وہ چینی حملے کی صورت میں تائیوان کی حفاظت کے لیے فوجی مداخلت کرے گا یا نہیں۔

بائیڈن نے گذشتہ برس اکتوبر میں بھی تائیوان کے دفاع کے بارے میں ایسا ہی تبصرہ کیا تھا۔ اس وقت وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا تھا کہ بائیڈن امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کا اعلان نہیں کر رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا