تائیوان: امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کا نیا محاذ

امریکہ نے ایک اعلیٰ ترین وفد تائیوان بھیجنے کا اعلان کیا ہے، جسے چین 'علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرناک قدم' کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

تائیوان کا مجوزہ دورہ کرنے والے امریکی وفد کی سربراہی وزیر صحت ایلکس ازر کریں گے (اے ایف پی)

امریکہ نے ایک اعلیٰ ترین وفد تائیوان کے دورے پر بھیجنے کا اعلان کیا ہے، جسے چین 'علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرناک قدم' کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

تائیوان کا مجوزہ دورہ کرنے والے وفد کی سربراہی امریکی وزیر صحت ایلکس ازر کریں گے۔ یہ دورہ ایسے وقت پر ہو گا جب دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے باہمی تعلقات تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

تائیوان میں امریکی سفارت خانے کے طور پر کام کرنے والے امریکن انسٹیٹیوٹ نے بدھ  کو کہا کہ چھ سال میں یہ پہلا موقع ہے جب کوئی امریکی وزیر تائیوان کا دورہ کرے گا جب کہ 1979 کے بعد سے امریکہ کے اعلیٰ ترین کابینہ حکام کا بھی یہ پہلا دورہ ہو گا۔

تاہم امریکن انسٹیٹیوٹ نے دورے کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے 1979 میں سفارتی سطح پر تائیوان کو چھوڑ کر چین کو تسلیم کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ واشنگٹن تائیوان کو اسلحہ فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے لیکن تاریخی اعتبار سے اس کے ساتھ سرکاری روابط کے قیام میں محتاط رہا ہے۔

چین تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ اسے واپس لے لے گا۔ کسی بھی دوسرے ملک کی جانب سے تائیوان کو تسلیم کرنے یا اس کے ساتھ  روابط قائم کرنے پر چین ناراضگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا کہ بیجنگ امریکہ اور تائیوان کے درمیان سرکاری وفود کے تبادلے کے سخت خلاف ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکی وفد کا دورہ منسوخ کیا جائے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم امریکہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ ’ایک چین‘ کے اصول کی پاسداری کرے تاکہ امریکہ چین تعلقات اور پوری آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو سنگین خطرے میں ڈالنے سے بچایا جا سکے۔‘

دوسری جانب تائیوان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکی وزیر صحت تائیوان کے صدرسائی انگوین سے ملاقات کریں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی وفد کا دورہ واشنگٹن اور تائپے کے درمیان مضبوط اعتماد کا واضح ثبوت ہے۔

صدر ٹرمپ کے دور اقتدار میں تائیوان اور امریکہ کے درمیان ڈرامائی گرم جوشی آئی ہے۔ امریکی صدر نے جمہوریت کے لیے پرجوش تائیوان کو آمرانہ نظام حکومت رکھنے والے چین پر زور دار جوابی وار کے لیے استعمال کیا ہے۔

ٹرمپ کئی معاملات پر چینی رہنماؤں کے ساتھ الجھے ہیں، جن میں تجارت اور کرونا وبا بھی شامل ہے۔

تائیوان کی حکومت ملک میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ اپنے طور پر روکنے میں کامیاب رہی ہے اور ملک ایشیا کی سب سے زیادہ ابھرتی ہوئی جمہوریت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ تائیوان کو واشنگٹن میں بھی بڑھتی ہوئی ٹھوس حمایت ملی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دارالحکومت تائپے میں عالمی تعلقات کے تجزیہ کار ایرک ہوانگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ریکارڈ بلند سطح پر لے جا رہی ہے اور اس سے چین کو پیغام دیا گیا ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ تعلقات کے لیے تائیوان کو قربان نہیں کرے گا۔

2016 کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد تائیوان کے صدر سائی نے ٹرمپ کو ٹیلی فون پر مبارک باد دی تھی۔ اس طرح ٹرمپ موجودہ یا تازہ کامیابی حاصل کرنے والے پہلے صدر بن گئے جنہوں نے 1979 کے بعد سے پہلی بار تائیوانی رہنما سے براہ راست گفتگو کی۔

تائیوان دفاعی اعتبار سے چین کے مقابلے میں بہت کمزور ہے اور ٹرمپ انتظامیہ نے اسے کئی طرح کا جدید اسلحہ فروخت کیا جن میں لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں جب کہ صدر ٹرمپ  سے پہلے امریکی صدور بیجنگ کی ناراضی کے معاملے میں محتاط رہے ہیں اور انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹدیز میں چائنہ پاور پراجیکٹ کی ڈائریکٹر بونی گلاسر نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ چین امریکی وفد کے دورہ تائیوان کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے'ایک چین' پالیسی سے انحراف کی ایک اور مثال کے طور پر دیکھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا