چیئرمین نیب کو توسیع دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا: شازیہ مری

شازیہ مری نے انڈپنڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا ہے کہ ’عمران خان کی گرفتاری کا معاملہ کابینہ میں زیر غور نہیں آیا لیکن ان کے آئین شکنی سے متعلق اقدامات کابینہ میں زیر غور آئے ہیں۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی وزیر برائے غربت کا خاتمہ اور سماجی تحفظ شازیہ مری کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کو توسیع دینے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور اس سے متعلق تمام عمل آئین و قانون کے مطابق ہوگا۔

وفاقی وزیر شازیہ مری نے انڈیپنڈنٹ اردو کے ساتھ انٹرویو میں نئے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق سوال پر صرف اتنا کہا کہ ’اتحادی حکومت میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا انتہائی اہم کردار ہے۔ جتنے بھی فیصلے ہونے ہیں، شہباز شریف سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ  بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے نکالے گئے ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں کو اپیل کا حق دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ ’اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو پروگرام سے نکالنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ بعض افراد کو عمرہ، ارجنٹ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنانے پر مجرم قرار دے کر پروگرام سے نام نکال دیا گیا۔ اب تمام نکالے گئے لوگوں کو اپیل کا حق دے دیا ہے اور مستحق لوگوں کو دوبارہ پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔‘

شازیہ مری نے بتایا کہ ’7.28 ملین افراد بی آئی ایس پی کے وصول کنندہ ہیں جبکہ یہ تعداد رواں سال جون میں آٹھ ملین ہو جائے گی جبکہ ہمارا ٹارگٹ 10 ملین افراد کا ہے اس طرح غربت کی لکیر سے نیچے تقریباً تمام افراد کور ہو سکتے ہیں اور جو پیریڈ کرونا کے دوران چھ ماہ ہو گیا تھا اسے بڑھا کر چار ماہ کرنے جا رہے ہیں۔‘

شازیہ مری نے واضح کیا ہے کہ بی آئی ایس پی کا نام کبھی احساس نہیں تھا نہ ہی اس کے لیے قانون میں کوئی ترمیم کی گئی ہے۔

’کابینہ میں ’احساس‘ کہہ دینا قانون کو بدل نہیں سکتا۔ اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ممالک نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے مزید بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔‘

کیا خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مانگے گئے پیسوں کا بی آئی ایس پی سے کوئی تعلق نہیں؟

وفاقی وزیر نے خیبرپختونخوا حکومت کے بی آئی ایس پی سے نکلنے سے متعلق خط کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ لگ رہا ہے کہ ’صوبائی حکومت کو معلومات نہیں ہیں یا وہ کنفیوژن پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ بی آئی ایس پی کا پچھلا بجٹ 250 ارب تھا جس میں سے 30 ارب نکال کر راشن کے نام پر رکھے گئے۔ اس وقت خیبر پختونخوا حکومت کی جانب راشن  پروگرام میں رقم ڈالی گئی تھی جس کا تعلق پروگرام سے نہیں ہے۔

’اس کی بینیفشری صرف خیبر پختونخوا حکومت نہیں باقی صوبے بھی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ان 30 ارب میں سے کچھ بھی خرچ نہیں ہوا۔ خیبر پختونخوا حکومت چاہتی ہے کہ ان کے پارک کیے گئے پیسے انہیں واپس کیے جائیں، اس کا بی آئی ایس پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خط میں یہ کہنا غلط ہے کہ اسے ری نیم کیا جا رہا ہے، یہ غلط انفارمیشن پر مبنی خط ہے جس کا معاملہ فنانس ڈیپارٹمنٹ دیکھ رہا ہے۔ صوبائی حکومت نے کابینہ کو غلط انفارمیشن دی اور کابینہ سے بھی غلط فیصلہ لیا۔‘

کیا عمران خان کی گرفتاری کا معاملہ کابینہ میں زیر غور آیا ہے؟

کابینہ کی رکن شازیہ مری نے انڈپنڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا ہے کہ ’عمران خان کی گرفتاری کا معاملہ کابینہ میں زیر غور نہیں آیا لیکن ان کے آئین شکنی سے متعلق اقدامات کابینہ میں زیر غور آئے ہیں۔ آئین شکنی کے حوالے سے آئین بڑا واضح ہے، جو بھی آئین شکن ہو اسے سزا ملنی چاہیے کیوں کہ اگر یہ مثالیں قائم نہیں کی جائیں گی تو پھر کوئی بھی آئین توڑ سکتا ہے۔ کوئی مقدس نہیں ہے، کسی بھی ادارے کا رہنما ہو، کسی بھی اہم پوزیشن یا چھوٹی پوزیشن پر ہو، اگر وہ شخص آئین شکنی کا ذمہ دار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جنرل پرویز مشرف پر الزام ثابت ہوچکا ہے تو  یقیناً عمران خان آئین سے بالاتر نہیں ہیں۔ اگر عمران خان نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے تو آئین عمران خان کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ اگر ایک جنرل کے خلاف کیس چل سکتا ہے تو پھر عمران خان کے خلاف بھی چل سکتا ہے۔ ‘

عمران خان کے کیے گئے معاہدوں کو تسلیم نہ کرنا ملک کی ساکھ پر سوال؟

شازیہ مری کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے قیمتیں بڑھانے کا معاہدہ کیا لیکن واپس آ کر کہا میں قیمیں کم کر رہا ہوں۔

’ہمارے لیے مشکل یہ بھی ہے کہ اگر اس وقت ہم عمران خان کے کیے گئے معاہدوں کو تسلیم نہ کرنے کا کہہ دیتے ہیں تو اس سے پاکستان کی ساکھ پر سوال اٹھے گا۔ موجودہ حکومت اس مہنگائی کی ذمہ دار نہیں ہے۔‘

شازیہ مری کے مطابق: ’پچھلے چار برسوں میں جو ان کی کارکردگی رہی ہے۔ حکومت پر بوجھ پڑنے کا ہمیں ادراک تھا۔ ہم عمران خان کی طرح نہیں کہیں کہ ہمیں ملکی مسائل کا پتہ نہیں تھا۔ مشکل فیصلے ہمارے سامنے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست