دعا زہرہ کیس: ’پولیس کو لوکیشن معلوم ہے پیشی میں وقت لگے گا‘

سینیئر پولیس افسر لاہورعمران کشور عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ پولیس نے ان کی لوکیشن معلوم کر لی ہے جس کےمطابق وہ دونوں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود ہیں لہذا ان کو عدالت پیش کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں بدھ کو دعا زہرہ کیس کی سماعت ہوئی لیکن جوڑے کو پیش نہیں کیا جا سکا (تصویر: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ)

لاہور ہائی کورٹ میں کراچی سے لاپتہ ہونے والی نوعمر لڑکی دعا زہرہ کی ساس اور جیٹھ کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت پولیس جوڑے کی لوکیشن معلوم ہونے کے باوجود اسے عدالت کے سامنے پیش نہیں کرسکی ہے۔

بدھ کو سماعت کے دوران جسٹس طارق سلیم نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ دعا زہرا کہاں ہے اورکیوں پیش نہیں کیا گیا؟

عدالت نے لڑکی اور اس کے خاوند کو بدھ کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

سینیئر پولیس افسر لاہورعمران کشور عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ پولیس نے ان کی لوکیشن معلوم کر لی ہے جس کےمطابق وہ دونوں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود ہیں لہذا ان کو عدالت پیش کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

عدالت نے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے دعا زہرہ اور ان کے خاوند کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

دوران سماعت پولیس کی جانب سے عدالت میں موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار دعا زہرہ کی ساس نور منیر اورجیٹھ شبیر احمد کو مقامی پولیس نے ہراساں نہیں کیا مگر ان سے جوڑے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا ضرور کہا گیا تھا۔

دوسری جانب درخواست گزاروں کے وکیل نے بھی عدالت کو بتایا کہ دعا زہرہ نے آخری بار 19 مئی کو کال کر کے پیشی کا معلوم کیا تھا اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں۔

اس معاملے پر سندھ ہائی کورٹ میں بھی سماعت جاری ہے اور آئی جی سندھ کو بھی لڑکی اور اس کے خاوند کو تلاش نہ کرنے پر عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا جاچکا ہے۔

دعا زہرہ کی ساس اور جیٹھ کے وکیل رائے خرم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے ہیں مگر ان کا دعا زہرہ یا اپنے موکلوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے تاہم 19مئی کو دعا نے کال کر کے پیشی کا معلوم کیا تھا۔

کم عمری کی شادی پنجاب میں قانونی سندھ میں غیر قانونی؟

کراچی سے لاپتہ ہونے والی دعا زہرہ کے والدین نے مقدمہ درج کرایا کہ ان کی بیٹی لاپتہ ہے اس کو بازیاب کرایا جائے۔اگلے ہی روز انہیں معلوم ہوا کہ لڑکی نے لاہور کے نوجوان سے پسند کی شادی کر لی ہے۔

جس کے بعد لڑکی کے والدین نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور سوال اٹھایا کہ ان کی بیٹی کی عمر 14سال ہے اس کی شادی کیسے ہوسکتی ہے؟

جس پر عدالت نے سندھ پولیس کو حکم دیا کہ لڑکی کو پیش کیا جائے مگر ابھی تک پیش نہیں کیا گیا تو سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کو اس ناکامی پر عہدے سے ہٹانے کا حکم بھی دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: دعا زہرہ کو پیش نہ کرنے پر آئی جی سندھ سے چارج لے لیا گیا

جبکہ پنجاب پولیس نے لڑکی کو اس کے خاوند سمیت لاہور سے ہراست میں لیا اور عدالت پیش کردیا عدالت میں جب دونوں کی رضا مندی سے شادی کا نکاح نامہ پیش کیا گیا تو لاہور کی عدالت نے انہیں جانے کی اجازت دی اور پولیس کوہراساں کرنے سے روک دیا۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ 2014 میں سندھ اسمبلی نے ایک بل پاس کیا جس میں شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 18 سال مقرر کر دی گئی اور یہ قانون بھی بن چکا ہے جس کے مطابق 18سال تک لڑکی یا لڑکے کا نکاح غیر قانونی ہوگا۔

جبکہ پنجاب میں بھی یہ بل کئی سال پہلے آبادی میں اضافہ پر قابو پانے اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی تجویز پر سیکریٹیریٹ میں جمع کرایا گیا تھا کہ شادی کی کم از کم عمر 18سال مقرر کی جائے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل پر اعتراض اٹھایا تھا۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے اس معاملہ پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

ان کے بقول اسلامی شریعت میں شادی کی ایسی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی اور سماجی لحاظ سے بھی یہ نامناسب ہے کیوں کہ شادی کی عمر سے متعلق بچوں کے والدین کو اختیار ہونا چاہیے۔

دوسرا یہ ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کی بیوہ بچی کی عزت سے متعلق پریشان ہو اور اسے تحفظ نہ دے سکتی ہو تو وہ 12 تیرہ سال کی بچی کو بطور تحفظ بیاہ سکتی ہے کیوں کہ اس کی ہمارا مذہب بھی اجازت دیتا ہے۔

اس معاملہ میں کئی بار بچوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے بھی جلد شادی ایک آپشن ہوتا ہے لہذا عمر کی حد مقرر کرنے سے ایسے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

دعازہرہ کیس کا پس منظر

دعا زہرہ نامی لڑکی کراچی کے علاقے الفلاح گولڈن ٹاؤن سے 16 اپریل کو لاپتہ ہوئی اور اگلے روز سوشل میڈیا سےمعلوم ہواکہ اس کا نکاح 17 اپریل کو لاہور کے رہائشی نوجوان ظہیر احمد سے ہوچکا ہے۔

نکاح نامے میں اس کی عمر 18 سال لکھی گئی اورحق مہر 50 ہزار روپے رکھا گیا۔ شادی کے موقع پر دعا کو مہر کی مد میں پانچ ہزار روپے دیے گئے۔

یہ معلومات کراچی پولیس کے رابطہ پر لاہور پولیس نے انہیں خاوند سمیت حراست میں لینے کے بعد لاہور کی عدالت میں پیش کیں۔

پولیس کی تحویل میں دعا زہرہ نے ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرایا تھا کہ ان کی ظہیر احمد سے دوستی ہوئی اوردوستی محبت میں بدل گئی لہذا انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے لاہور آئیں۔

اس کیس میں لاہور پولیس نے گذشتہ ہفتے نکاح خواں ملزم غلام مصطفیٰ اور ایک گواہ اصغر علی کو گرفتار کر کے مقامی عدالت پیش کیا تو نکاح خواں نے عدالت میں اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نکاح نہیں پڑھایا۔

گواہ اصغر نے بتایا کہ ’مجھے گواہ بنایا گیا ہے۔‘

جس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ مزید تین ملزمان کوگرفتار کرنا ہے، تفتیش کرنی ہے کہ واقعی ملزم نے نکاح پڑھایا بھی ہے یا نہیں۔

عدالت نے ان دونوں ملزمان کو پانچ جون تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

ایس ایس پی لاہور عمران کشور کے بقول: ’ابھی لڑکی کی عمر سے متعلق ابہام ہے اور ان کے والد نے اس نکاح کو کراچی میں چیلنج کیا ہے تو ہم سارا معاملہ سندھ پولیس کے حوالے کر رہے ہیں تاکہ وہاں لڑکی کی عمر کا تعین ہوسکےاور قانون کے مطابق کارروائی آگے بڑھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین