دعا زہرہ کو پیش نہ کرنے پر آئی جی سندھ سے چارج لے لیا گیا

جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ جمعے تک سماعت ملتوی کر رہے ہیں، بچی کو بازیاب کرا لیں گے تو آئی جی سندھ کو جاری شوکاز واپس لے لیں گے۔

سندھ ہائی کورٹ میں پیر 30 مئی کو دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی (تصویر: سندھ ہائی کورٹ ویب سائٹ)

سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی لڑکی دعا زہرہ کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے آئی جی سندھ کامران افضل سے چارج لینے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی ’اہل افسر‘ کو دیا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ میں پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اپنی رائے دے کہ کامران افضل اس عہدے کے اہل ہیں یا نہیں؟ آئی جی سندھ نے غیر حقیقی رپورٹ پیش کی جو مسترد کی جاتی ہے۔

آئی جی سندھ کامران فضل نے سماعت کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کے علاقے سعود آباد سے لاپتہ ہونے والی بچی نمرہ کاظمی کو بازیاب کرا لیا ہے، جبکہ دوسری جانب کراچی کے علاقے الفلاح سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی بچی دعا زہرہ کو بازیاب کرانے کے لیے عدالت سے وقت مانگا ہے۔ 

سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد آئی جی سندھ کامران فضل نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے پولیس چاروں صوبوں میں چھاپے مار رہی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ دعا زہرہ یا تو ہزارہ میں ہیں یا پھر مانسہرہ میں ہیں۔ اس پر عدالت نے آئی جی سندھ کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔

دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ پولیس نے مانسہرہ  کے گاؤں گڑھی حبیب اللّٰہ میں چھاپہ مارا مگر ان لوگوں کہیں سے پتہ لگ گیا کہ پولیس آنے والی ہے اور وہ چھاپے سے پہلے ہی دعا زہرہ کو لے کر چلے گئے۔

سماعت کے دوران جسٹس اقبال کلہوڑو نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ ’آپ چاہتے ہیں آپ کا کام وہاں کے ڈی آئی جی کریں؟‘

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ وہاں کے افسران آئی جی سندھ کے ساتھ رابطے میں ہیں جس پر جسٹس آغا فیصل نے کہا کہ ’ہمیں بھی پولیس یہاں آکر یہی بتا رہی ہے۔‘

جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیے کہ ’یہ ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں، ایک بچی لاپتہ ہے، جتنی کوشش عدالت کو مطمئن کرنے میں لگ رہی ہے، اگر بچی کی بازیابی کے لیے ایک فیصد بھی کرتے تو بچی مل جاتی۔‘

جسٹس اقبال نے ریمارکس دیئے کہ پچھلی سماعت پر تو کے پی کے پہنچا دیا تھا، آج ہزارہ میں ہے بتا رہے ہیں، کل کو کہیں گے افغانستان سے سگنل آرہے ہیں تو ہم کیا کریں گے ؟

جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ کیا صوبے کی پولیس اتنی نااہل ہوچکی ہے، یہ عدالت 21 دن سے احکامات جاری کر رہی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ پولیس بازیاب نہیں کرائے گی تو کون بچی کو بازیاب کرائے گا؟ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے کیا کہا ہے؟

جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ جمعے تک سماعت ملتوی کر رہے ہیں، بچی کو بازیاب کرا لیں گے تو آئی جی سندھ کو جاری شوکاز واپس لے لیں گے۔

دوسری جانب نمرہ کاظمی کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پولیس نے نمرہ کاظمی کو عدالت میں پیش کر دیا ہے۔

سماعت کے دوران نمرہ کاظمی نے عدالت کو بتایا کہ وہ میٹرک میں پڑھتی ہیں، ان کی عمر 18 سال ہے، مگر والدین نے ان کی عمر کم لکھوائی تھی۔

اس پر جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ میٹرک کی طالبہ کی عمر 14 یا 15 سال ہوتی ہے، آپ 18 سال کی تو نہیں ہیں۔

عدالت نے بتایا کہ دستاویز کے مطابق نمرہ کی تاریخ پیدائش چھ مئی 2008 ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر میں شادی نہیں ہوسکتی ہے۔

عدالت نے نمرہ کاظمی کو میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے عمر کا تعین ہونے تک انہیں شیلٹر ہوم بھیج دیا جبکہ عدالت نے والدین کو نمرہ کاظمی سے ملاقات کی اجازت بھی دے دی۔

واضح رہے کہ نمرہ کاظمی 20 اپریل 2022 کو کراچی کے علاقے سعود آباد سے لاپتہ ہوگئی تھیں۔ بعد میں پولیس حکام کے مطابق نمرہ نے ڈیرہ غازی خان میں نجیب شاہ رخ نامی ایک لڑکے سے نکاح کر لیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان