قدیم چین میں عورت کو گناہگار کیوں سمجھا جاتا تھا؟

قدیم چینی معاشرے میں عورت کو کم تر اور بوجھ سمجھا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ عورت کی پیدائش اس کے پہلے جنم کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔

تمام پابندیوں کے باوجود جب بھی چینی عورتوں کو موقع ملتا تو وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا پوری طرح اظہار کرتی تھیں (پکسابے)

چینی تہذیب کے سلسلے میں اکثر یہ بحث کی جاتی ہے کہ کیا اس کی ایجادات اور ترقی اس کی اپنی اندرونی صلاحیتوں کے باعث تھی اور کیا اس نے علیحدگی میں رہتے ہوئے بھی دوسری تہذیبوں سے سیکھا؟

 چینی خود کو دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں اعلیٰ اور مہذب کہتے تھے۔ ان کا سیاسی نظام بادشاہت تھا اور یہاں مختلف شاہی خاندان حکومت کرتے رہے تھے۔ چینی بادشاہ خود کو آسمانی بادشاہ کہا کرتے تھے یعنی کنگ آف ہیون۔

اس کے بارے میں تو ہمیں پوری تاریخی معلومات نہیں کہ چینی معاشرے میں پدرسری کا نظام کب اور کیسے آیا، لیکن ابتدائی دور کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مادر سری نظام کی روایات موجود تھیں مثلاً شانگ خاندان (1600 ق م تا1046 ق م) کے دورِ حکومت میں ماہرین آثارِ قدیمہ نے ایک ملکہ کا مقبرہ دریافت کیا ہے جس کی حیثیت حکمران کی تھی۔ اس کے مقبرے میں اُس کے زیورات، اُس کے استعمال کی اشیا، اُس کی سواری کی گاڑی اور اگلی دنیا میں اُس کی خدمت کے لیے اُس کے ملازموں کو بھی ساتھ ہی میں دفن کر دیا گیا تھا۔

شاید یہ صورت حال آہستہ آہستہ تبدیل ہوئی اور مادرسری کی جگہ پدرسری نے لے لی، جس میں عورت کا سماجی رتبہ گرتا چلا گیا اور عورت کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ آزاد رہ کر اپنی حفاظت کر سکے گی۔ اس لیے اپنی اس کمزوری کے احساس کے تحت عورت نے مرد کی بالادستی کو قبول کر لیا۔ اس روایت کو سینگ کونگ کہا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عورت کو معاشرے میں کم تر اور بوجھ سمجھا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ عورت کی پیدائش اس کے پہلے جنم کے گناہوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے اسے مرد سے عورت بنا دیا گیا ہے۔ اس روایت کی وجہ سے عورت خود کو بھی گناہ گار سمجھتی تھی۔ لیکن ان ناخوشگوار باتوں کے باوجود معاشرے اور خاندان کے تسلسل کے لیے عورت کا وجود ناگزیر تھا۔ لیکن اس بات کی کوشش کی جاتی تھی کہ عورت کے کردار کو اس طرح ڈھالا جائے کہ مرد اُسے قبول کرے۔

اس سلسلے میں بچپن ہی میں لڑکی کے پیروں کو کپڑے کی پٹیوں کے ذریعے کَس کر باندھ دیا جاتا تھا۔ اس کو باقاعدہ ایک رسم کی شکل دی گئی جسے پیر بندی کہا جاتا تھا۔ لڑکی کو سخت اذیت ہوتی تھی کیونکہ یہ ایک تکلیف دہ عمل تھا کیونکہ جب تک پٹیاں بندھی ہوتی تھیں وہ چل پھر بھی نہیں سکتی تھی۔ اس رسم کی ابتدا دسویں صدی عیسوی میں شاہی خاندان کی رقاصاﺅں نے کی تھی جو اپنے چھوٹےچھوٹے پیروں کی وجہ سے خوبصورت رقص کرتی تھیں۔ چینی مردوں کو چھوٹے پیروں سے عورت کا چلنا رومان پرور لگا۔ جس کی وجہ سے یہ رسم پورے چین میں پھیل گئی۔

فرق یہ تھا کہ امرا کی لڑکیاں پیروں پر پٹیاں بندھنے کے دوران باہر جانے کے لیے پالکی استعمال کی جاتی تھی لیکن غریب کسان لڑکیاں بمشکل لکڑیوں کے سہارے چلا کرتی تھیں۔ اس رواج کی وجہ سے بعض اوقات خواتین زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتی تھیں۔ بالآخر اس رسم کا خاتمہ چین میں کمیونسٹ انقلاب آنے کے بعد ہوا۔

دوسری اہم رسم یہ تھی کہ جب لڑکی بلوغٹ کی عمر میں قدم رکھتی تھی تو اس کے بالوں کا جوڑا بنا کر اُس میں کلپ لگا دیا جاتا تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ لڑکی اب شادی کے قابل ہو گئی ہے۔ کچھ خاندان ایسے بھی تھے جو لڑکی کی پیدائش پر اُسے مار ڈالتے تھے۔ اُن کے نزدیک اُس کا پیدا ہونا گھر کے لیے بَد شگون سمجھا جاتا تھا، اور اس لیے بھی کہ پدرسری نظام میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ لڑکے ہی خاندان کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

لڑکی کی پیدائش کے وقت ماہر علم نجوم سے اُس کا زائچہ بنوایا جاتا تھا اُس کے بعد اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ پیشہ ور رشتہ کروانے والوں کے ذریعے لڑکی کے ذائچے کے مطابق اس کا شوہر تلاش کیا جائے۔ شادی کے سلسلے میں لڑکی کی عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی تھی۔ یہ شادی بچپن میں بھی کر دی جاتی تھی۔ شادی پر لڑکی کو سرخ کرسی پر بیٹھا کر شوہر کے گھر بھیجا جاتا تھا اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ لڑکی یا دلہن کا پاﺅں زمین پر نہ پڑنے دیا جائے۔

عورت کا اپنے شوہر سے طلاق لینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن عورت اُس صورت میں طلاق لینے کا حق رکھتی تھی جب اُس کا شوہر مسلسل بیوی کے ماں باپ کے ساتھ برا سلوک روا رکھے۔ لیکن مرد کے پاس عورت کو طلاق دینے کے کئی بہانے موجود تھے، مثلاً بیٹا پید انہ ہونے کی صورت میں طلاق۔ عورت کا زیادہ باتونی ہونے کی صورت میں طلاق۔ عورت کو اگر کوئی چھوت کی بیماری ہو جاتی تو بھی مرد کے پاس طلاق کی وجہ آجاتی۔ حسد کرنے کی اور شوہر کے والدین کی عزت نہ کرنے پر بھی عورت کو طلاق دی جا سکتی تھی۔

تمام پابندیوں کے باوجود جب بھی عورتوں کو موقع ملتا تو وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا پوری طرح اظہار کرتی تھیں لیکن یہ آزادی امرا کی عورتوں تک محدود تھیں۔ غریب اور نچلے درجے کی عورتیں اپنے روزمرہ کام کاج کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتی تھیں۔ کیونکہ امرا کی خواتین کے پاس نوکروں کی کثیر تعداد کی وجہ سے اُن کے پاس وقت کی کافی گنجائش ہوتی تھی اس لیے اُن کے پاس پڑھنے لکھنے کا وقت موجود ہوتا تھا۔ جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھاتی تھیں۔ اس طرح تعلیم کے شعبے میں آگے بڑھ کر وہ اپنی اور خاندان کی عزت میں اضافے کا باعث ہوتی تھیں۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ امرا کی خواتین نے خاص طور پر رقص، موسیقی، آرٹ، شاعری، خوش نویسی اور تاریخ نویسی میں اہم اضافے کیے اور چینی تہذیب کی ترقی میں اضافہ کیا۔ مثلاً بان ژاؤ (41 تا 115 عیسوی) تعلیم یافتہ خاتون تھی اور  اُس نے کنفیوشس کے فلسفے کی تشریح کی اور عورتوں کی راہنمائی کے لیے ہدایت نامہ لکھا کہ وہ کن اوصاف کو اختیار کر کے اچھی بیوی بن کر شوہر کو خوش رکھ سکتی ہیں۔

 اُس نے عورتوں کو یہی نصیحت کی کہ شوہر کی وفادار، تابعدار اور پاک دامن رہ کر زندگی گزاریں۔ اُس کی یہ کتاب چینی معاشرے میں بڑی مقبول ہوئی اور کئی صدیوں تک عورتوں کی راہنمائی کے لیے استعمال ہوتی رہی۔

ایک دوسری خاتون جس کا تعلق ٹانگ خاندان سے تھا وو ژاؤ کہلائی جس نے آگے بڑھ کر بدھ آرٹ کی سرپرستی کی اور چینی تہذیب میں بدھ مذہب کی ترویج کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چینی عورتوں میں نہ صرف فنکارانہ صلاحیتیں تھیں بلکہ اُن میں خوبصورتی کا احساس بھی تھا۔ اس لیے مردوں کی نظروں میں اپنے اثر و رسوخ کو اپنی جسمانی خوبصورتی، کپڑوں اور زیورات کے انتخاب اور خوشبوﺅں کے ذریعے پیدا کرتی تھیں۔ یہ فیشن ایبل خواتین چینی تہذیب کے اعلیٰ معیار کی علامت تھیں۔

تاریخ کایہ المیہ ہے کہ اس کی تمام معلومات کا مرکز حکمران طبقے اور اُن کی عورتیں ہوتی ہیں۔ جبکہ نچلے طبقے کی عورتوں کو معاشرے کی تشکیل میں اُن کے کردار کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کیونکہ غریب اور مفلوک الحال عورتوں میں وہ شان و شوکت اور خوبصورتی نظر نہیں آتی جو کہ امرا کی عورتوں کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ اس لیے روایتی مورخ امارت کی چکاچوند پر جاتے ہیں اور غربت اور مفلسی سے نظریں چراتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ