’ہم قبائلی ضلع اورکزئی سے پشاور شہر آئے ہیں تاکہ یہاں پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں لیکن یہاں پر لوڈشیڈنگ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی اور اب ہاسٹل سے باہر مچھر دانی لگا کر مطالعہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا قبائلی ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والے جمیل حسین کا جو پشاور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں بی ایس کے طالب علم ہیں۔
گرمی کے اثرات چہرے پر نمایاں تھے لیکن پھر بھی جمیل کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
جمیل کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ اگر بجلی آئے گی بھی تو کب کیونکہ حکام کی جانب سے کوئی شیڈول نہیں دیا گیا تھا۔
جميل کے ساتھ ان کے دوست بھی مچھر دانی میں بیٹھے مطالعہ کر رہے تھے۔
دونوں نے اپنے موبائل فون میں موجود ٹارچ سے روشنی کی ہوئی تھی تاکہ کتابیں اور نوٹس دیکھ سکیں۔
جمیل کے دوست نے کانوں میں بڑے سائز کے ہیڈ فون بھی لگائے تھے شاید اس وجہ سے کہ آس پاس کے لوگوں کی آہیں اور آوازیں نہ سن سکیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال پر جميل نے لمبی سانس لی اور کہا کہ یہ ہمارا حال ہے۔ قبائلی ضلع سے اس وجہ سے یہاں آئے ہے کہ وہاں سہولیات نہیں ہیں لیکن اب صوبے کے دارالحکومت میں ہم بیٹھے ہیں لیکن یہاں بھی پریشان ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گرمی کے رواں موسم میں وفاقی حکومت کے مطابق بجلی کا شارٹ فال زیادہ ہوگیا ہے جبکہ بعض پاور پلانٹس سے بجلی کی ترسیل بھی نہیں ہو رہی۔ جس کی وجہ سے صارفین کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چند روز قبل وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’بجلی کا شارٹ فال تقریبا سات ہزار میگاواٹ تک ہے اور صارفین کو ساڑھے تین گھنٹے یومیہ لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
لوڈشیڈنگ سے شعبہ زندگی کا ہر ایک طبقہ متاثر ہو رہا ہے جس میں طلبہ بھی شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا میں جمعے سے انٹر کے امتحانات بھی شروع ہو چکے ہیں لیکن مختلف علاقوں میں طلبہ لوڈشیڈنگ سے پریشان ہیں۔
پشاور کی تاریخی درسگاہ اسلامیہ کالج بھی لوڈشیڈنگ کی لپیٹ میں ہے اور 10 سے 12 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جبکہ گرلز ہاسٹلز میں جنریٹر کی سہولت تو موجود ہے لیکن انتظامیہ والے جنریٹر استعمال نہیں کرتے۔
اسلامیہ کالج گرلز ہاسٹل کی ایک طالبہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ ایک ہفتے سے ہاسٹل میں پینے تک کا پانی موجود نہیں ہے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جس سے مطالعہ متاثر ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کالج انتظامیہ ہر ماہ جنریٹر کی مد میں طلبہ سے فیس بھی وصول کرتی ہے لیکن جنریٹر استعمال نہیں ہوتا۔‘
یہ مسئلہ گذشتہ ایک ہفتے سے موجود ہے اور اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش سے بات کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ کئی سالوں سے جنریٹر خراب پڑا تھا اور اب اسے ٹھیک کر دیا ہے۔‘
اسی طرح پانی کے مسئلے کے حوالے سے کامران بنگش نے بتایا کہ ’انتظامیہ کا موقف ہے کہ جس ہاسٹل کی بات ہورہی ہے اس کی بالائی منزل کی واٹر موٹر خراب ہو گئی ہے اور جلد اس کو ٹھیک کیا جائے گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ایک ہفتہ بعد اس مسئلے کی پیروی کی تو معلوم ہوا کہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے اور ابھی تک پانی اور جنریٹر کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا ہے۔
مچھر دانی میں بیٹھے جمیل بھی اسی وجہ سے پریشان ہیں کہ لوڈشیڈنگ جب ہوتی ہے تو پھر اس گرمی میں کون مطالعہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی اسائمنٹ کر سکتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پشاور کی گرمی برداشت سے باہر ہوتی ہے اور پھر جب بجلی بھی نہ ہو تو کون برداشت کر سکتا ہے۔ اتنے وسائل بھی نہیں ہیں جس سے ہم جنریٹر یا یو پی ایس خرید سکیں۔‘