غزہ کے ساحل پر سرفنگ کرتے فلسطینی نوجوان

غزہ کے ساحل پر فلسطینی نوجوانوں کے لیے سرفنگ کا موقع فراہم کیا گیا ہے جس کا انعقاد فلسطین کی کشتی رانی اور روئنگ ایسوسی ایشن نے کیا تھا۔

فلسطینی نوجوانوں نے غزہ کے سمندر کی لہروں پر سرفنگ کی ہے جس کا موقع انہیں فلسطین کی کشتی رانی اور روئنگ ایسوسی ایشن نے فراہم کیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطین کی کشتی رانی ایسوسی ایشن کے صدر خلدون ابو سالم کا کہنا ہے کہ یہ پہلا سرفنگ ایونٹ تھا جس کا انعقاد غزہ کے فلسطینی نوجوانوں کے لیے کیا گیا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہماری رکاوٹ اس کھیل کے لیے خصوصی سرف بورڈ کا حصول ہے۔‘

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’غزہ میں سرف بورڈ کے داخلے پر پابندی ہے اور موجودہ بورڈز 15 سالوں سے ان نوجوانوں کے پاس موجود ہیں جنہیں مرمت کی ضرورت ہے۔‘

خلدون کا کہنا تھا کہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود اس ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جو کہ ایک ’خوبصورت تقریب‘ تھی۔

غزہ کے ساحل پر سرفنگ کرتے یہ نوجوان کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں۔

ممحمد ابو حصيره کا تعلق غزہ سے ہے اور انہوں نے سرفنگ کے تجربے پر بات کرتے ہوئے کہا: ’میرا ایک خواب ہے کہ اونچی لہروں پر سواری کے لیے غزہ سے باہر جا سکوں۔ یہاں اونچی لہریں ہیں اور نہ تیراکی کا سامان۔ غزہ میں اس کے داخلے پر پابندی ہے۔‘

محمد غنیم نے بھی اس ایونٹ میں سرفنگ کی تھی۔ ان کا کہنا تھا: ’یہ ناقابل بیان پرتعیش احساس ہے۔ یہ مشکل اور خطرناک شوق ہے۔ لیکن خوبصورت بھی ہے اور خوبصورت ترین مشاغل میں سے ایک ہے۔‘

فلسطینی کھلاڑیوں کو مقبوضہ علاقوں میں داخلے یا وہاں سے باہر جانے کے لیے سخت اسرائیلی نگرانی سے گزرنا پڑتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکثر حالات میں اسرائیل فلسطینی کھلاڑیوں کو مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے میچوں میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

مڈل ایسٹ آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی غیر ملکی ٹیمیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کھیلوں کے مقابلے کی غرض سے داخل ہو سکتی ہیں۔

اسرائیل انفرادی کھلاڑیوں کو بھی نشانہ بناتا ہے جیسا کہ غزہ سے تعلق رکھنے والے محمود سرسک کو۔ وہ ایک فٹ بالر تھے اور انہیں اطلاعات کے مطابق بغیر کسی واضح وجہ کے اسرائیلی فورسز نے گرفتار کر لیا۔

محمود سرسک کی تین سالہ قید تب ختم ہوئی کہ انہیں 2012 میں بھوک ہڑتال پر جانا پڑا جو 90 روز تک جاری رہی۔ بالآخر اسرائیلی فورسز نے بھوک ہڑتال کے خاتمے کے عوض انہیں رہا کر دیا۔

اسی طرح نوجوان فٹ بالرز کو بھی اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے۔ جنوری 2014 میں 19 سالہ جواہر ناصر اور 17 سالہ حالابیہ کو اسرائیلی فوجیوں نے گولی مار دی۔ اس وقت وہ دونوں مقبوضہ مغربی کنارے کے فیصل الحسینی سٹیڈیم میں ٹریننگ سیشن کے بعد گھر لوٹ رہے تھے۔

ایک ماہ بعد دونوں کو بتایا گیا کہ اپنے زخموں کی وجہ سے اب وہ بھی کھیل نہیں پائیں گے۔

غیر ضروری مداخلت کے کئی واقعات کے بعد فلسطینی فٹ بال ایسوسی ایشن کو مجبوراً 2015 میں فیفا میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی قرارداد دینے پڑی۔

اس قرارداد پر بہت بحث ہوئی بالآخر فلسطینی فٹ بال ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر جبریل رجب کو دیگر اراکین کے زور میں آ کر قرارداد واپس لینی پڑی۔ تاہم اس وقت یہ بات کی گئی کہ ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو آئندہ صورت حال کی نگرانی کرے گی۔

لیکن بعد ازاں بھی اسرائیل کی جانب سے فلسطینی کھلاڑیوں اور کھیل کے میدانوں میں غیر ضروری مداخلت کا سلسلہ جاری ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل