لوگ اسے روایات کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں: فلسطینی خاتون باکسر

30 سالہ ریتا ابو رحمہ کے مطابق ’ باکسنگ لڑکیوں کی نسوانیت کو ختم نہیں کرتی۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں اپنے پسندیدہ کھیل کھیلنے کا حق رکھتے ہیں۔‘

غزہ میں ایک عمارت کے مصنوعی روشنیوں سے جگمگاتے تہہ خانے میں واقع باکسنگ رنگ میں گھنٹی کی آواز سنائی دیتے ہی دو لڑکیاں گلوز اور حفاظتی ہیلمٹ پہنے ایک دوسرے پر مکے برسانے کے لیے پر تول رہی ہیں۔

رنگ کے ارد گرد موجود ان کے اہل خانہ اور دوست ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے پر تاک تاک کے مکے برسانا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ اس فلسطینی علاقے میں ہونے والا پہلا باکسنگ ٹورنامنٹ ہے جس میں صرف خواتین شریک ہیں۔

کرونا کی وبا کے باوجود یہاں آنے والے تماشائیوں کا شور کمنٹری کرنے والے کی گونج دار آواز میں دب جاتا ہے۔

مقابلے میں شریک ایک نوجوان باکسر فرح ابو القوصمان کی عمر 15 سال ہے اور وہ رنگ میں کودنے سے پہلے کئی سال تک آن لائن باکسنگ کے مقابلے دیکھ کر تربیت لیتی رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’میں مائیک ٹائی سن اور محمد علی کے مقابلے دیکھتی تھی۔ مجھے ان کو لڑتے دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ بہت اچھے باکسر ہیں اور اکثر پہلے ہی راونڈ میں جیت جاتے ہیں۔‘

گذشتہ جمعے کو ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں شامل خواتین اور لڑکیاں اپنے وزن کے مطابق بنائی جانے والے زمروں میں مقابلہ کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

30 سالہ ریتا ابو رحمہ کہتی ہیں، ’کئی لوگوں کو لگتا ہے ہم جو کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ہم روایات اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ لیکن میرے لیے، میرے اہل خانہ اور میرے دوستوں کے لیے یہ ایک عام بات ہے اور وہ میری حمایت کرتے ہیں۔ باکسنگ لڑکیوں کی نسوانیت کو ختم نہیں کرتی۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں اپنے پسندیدہ کھیل کھیلنے کا حق رکھتے ہیں۔‘

ایسا فلسطین میں پہلی بار ہوا ہے۔ غزہ کی پٹی ساحل سمندر پر واقع ہے جہاں 20 لاکھ لوگ رہتے ہیں اور اس گنجان آباد علاقے پر اسلامی تحریک حماس کی حکومت ہے۔

اسرائیلی محاصرے کا شکار اس علاقے کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور یہاں بے روزگار کی شرح 50 فیصد ہے جب کہ نوجوانوں میں یہ شرح 65 فیصد ہے۔

35 سالہ باکسنگ کوچ اسامہ ایوب کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک اولمپک باکسنگ کلب ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کہ ہم تمام کھلاڑیوں کے لیے باکسنگ یا ہیلمٹ مہیا کر سکیں۔‘ ان کے مطابق ایسا ٹورنامنٹ فلسطین میں پہلی بار ہوا ہے اور انہیں یہ ٹورنامنٹ منعقد کرانے پر فخر ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے 45 مقابلے کرائے ہیں اور ہم فروری میں کویت میں ہونے والے مقابلوں میں فلطسین کی نمائندگی کریں گے۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل ان کے کھلاڑیوں کو سرحدی راہداری سے گزرنے کا راستہ دے گا تاکہ وہ کویت جا سکیں۔

ان کی ٹیم کو بھی فروری سے پہلے کرونا کی وبا پر قابو پائے جانے کی امید ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل